1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر کے بغیر مذاکرات بے سود ہیں، نواز شریف

شکور رحیم ، اسلام آباد24 اگست 2015

بھارت کو ’سخت اور دو ٹوک‘ پیغام بھیجتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ نئی دہلی حکومت کے ساتھ کشمیر کے تنازعے پر پر بات چیت کے بغیر کسی بھی قسم کے مذاکرات بے سود ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/1GKpD
Pakistan - Premierminster Nawaz Sharif
تصویر: Getty Images/S. Gallup

پیر کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کشمیری رہنماؤں کی آراء اور ان کے مشورے کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں کشمیری رہنما کوئی تیسرا یا غیر اہم نہیں بلکہ وہ اس کے اہم فریق ہیں۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ مذاکرات اور دہشت گردی کےخلاف قومی ایکشن پلان پر وزیراعظم کو تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔

بریفنگ کے اختتام پر وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت دہشت گردی کے خلاف بنائے جانے والے قومی ایکشن پلان پر عمل کرنے کے لیے پوری طرح کار بند ہے اور اس کی کامیابی کے فوائد پاکستان کے ہر کونے تک پہنچیں گے۔

’’دہشت گردوں کے تمام نیٹ ورک توڑ دیے‘‘

دریں اثناء پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دعوی کیا ہے کہ ملک میں موجود دہشت گردوں کے تمام نیٹ ورک توڑ دیے گئے ہیں اور ایک سال سےزائد کا عرصہ ہو چکا کہ پاکستانی سرزمین بیرون ملک دہشت گردی کی کسی کارروائی کے لئے استعمال نہیں ہوئی۔

پیر کے روز وزیر اعظم نواز شیرف کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزر اطلاعات پرویز رشید کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ آج کا پاکستان سال دوہزار تیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ محفوظ ہے۔

’’اڑسٹھ ہزار مشتبہ افراد گرفتار‘‘

دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان (نیپ)کے تحت اب تک کی پیش رفت بتاتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر باسٹھ ہزار کارروائیوں میں اڑسٹھ ہزار مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔

Chaudhry Nisar Ali Khan
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal

انہوں نے کہا کہ اس دوران گیارہ سو چودہ ’دہشت گرد‘ ہلاک جبکہ انتہائی خطرناک آٹھ سو تراسی ’دہشت گرد‘ گرفتار کیے گئے۔ اسی طرح تین ہزار چار سو باسٹھ ’دہشت گردوں‘ کی نشاندہی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سات ہزار چار سو نو افراد کو شیڈول چار میں ڈالا گیا۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ دو ہزار چھ سے لے کر دوہزار چودہ تک آٹھ سالوں کے دوران ملک میں دہشت گردی کے پندرہ ہزار اڑتالیس واقعات ہوئے اور دوہزار دس سب سے خونی سال تھا جب پاکستان میں ایک سال کے دوران دہشت گردی کے دو ہزار اکسٹھ واقعات پیش آئے۔

چوہدری نثار نے کہا، ’’ قومی ایکشن پلان کے نفاذ کے بعد آٹھ ماہ میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اور اب تک چھ سو پچانوے دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں جن میں سے تین سو پانچ میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ لوگ زخمی ہوئے تو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کے تین سو پینتالیس واقعات ہوئے۔‘‘

انہوں نےکہا کہ نیپ دراصل پاکستان کی سلامتی کی پالیسی ہے۔ حالات میں تیزی سے بہتری آرہی ہے اس صورتحال کو نہ تو متنازعہ بنایا جائے اور نہ ہی سبوتاژ کیا جائے۔

سول اور فوجی تعلقات

وزیر داخلہ نے خاص طور پر اپنی پریس کانفرنس میں سول اور فوجی تعلقات کے اچھے ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا، ’’بلاوجہ سول ملٹری تعلقات پر بحث نہیں ہونی چاہیے۔ ملٹری اور سول تعلقات پر رائے زنی نہیں کی جانی چاہیے، اس طرح نیشنل ایکشن پلان کی رفتار متاثر ہو سکتی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت نے شمالی وزیرستان میں آپریشن سے قبل شدت پسند تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جو مذاکرات کیے تھے اس میں فوج کا نمائندہ شامل تھا۔ چوہدری نثار نے کہا، ’’اگر فوج آن بورڈ نہ ہوتی تو اس کا نمائندہ شامل نہ ہوتا، ہم نے خیر سگالی کے طور پر ان کے (طالبان) کے بندے چھوڑے تھے، جو فوج کی حراست میں تھے۔ ہم مذاکرات کرتے رہے کہ بات چیت سے امن لایا جائے لیکن ہمارے شہروں اور گلیوں میں بمباری ہوتی رہی۔"

انہوں نے کہا کہ کراچی ائیر پورٹ پر شدت پسند طالبان کے حملے کے بعد شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن کے بعد سے شہر کی سکیورٹی صورتحال میں ساٹھ سے ستر فیصد بہتری آگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی درخواست پر ہزاروں کی تعداد میں فوجی جوان اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں تیسری دفاعی لائن کے طور پر موجود ہیں۔ قومی ایکشن پلان کے تحت تین ماہ میں چودہ کروڑ موبائل فون سموں کی تصدیق کی گئی ہے اور جس دن سے یہ عمل مکمل کیا گیا موبائل فون کے ذریعے دہشت گردی کے واقعات کی تعداد صفر ہو گئی ہے۔

انہوں نے (ق) لیگ اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’ایک ملک تیرہ سال سے مکمل جنگ میں پھنسا ہوا تھا ایک مکمل جنگ تھی لیکن اس کے خلاف کوئی حکمت عملی یا ڈیٹا بیس نہیں بنایا گیا، ہم اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارتے رہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ آج تمام ضروری ڈیٹا موجود ہے کہ کتنی کالعدم تنظیمیں ہیں اور ان میں سے کتنی مسلح اور کتنی غیر مسلح ہیں، ’’ہمارے اعداد و شمار کے مطابق اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کی طرف سے اکسٹھ تنظیمیں کالعدم کی فہرست اور ایک واچ لسٹ پر ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلحہ صرف فوج او قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے پاس ہو گا، ’’نجی ملیشیاؤں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کو غیر مسلح کیا جائے گا۔‘‘

فوجی عدالتوں میں زیر سماعت دہشت گردی کے مقدمات کے بارے میں وزیر داخلہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں نے اٹھائیس مقدمات میں فیصلے سنا دیے ہیں جبکہ چھیالیس مقدمات زیر سماعت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نو فوجی عدالتیں کام کرہی ہیں، ’’ سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت میں تیزی آئے گی۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’فوجی عدالتوں میں کوئی بھی مقدمہ سفارش پر نہیں بھیجا جائے گا۔ اس میں صرف جیٹ بلیک دہشت گروں کا ٹرائل ہو گا، باقی تمام مقدمات کی سماعت ہماری عدلیہ کرے گی۔‘‘