1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کشمیر کی داخلی خودمختاری کی سفارش‘

24 دسمبر 2009

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی طرف سے تین سال قبل تشکیل دئے گئے ’کشمیر ورکنگ گروپ‘ نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ اس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لئے وسیع بنیادوں پر اندرونی خودمختاری کی سفارش کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/LCul
حریت کانفرنس کے اعتدال پسند رہنما میرواعظ عمر فاروق اپنے حامیوں کے ہمراہتصویر: UNI

کشمیر ورکنگ گروپ کے سربراہ صغیر احمد نے اپنی رپورٹ میں بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے کہا ہے کہ ہر ممکن حد تک ’’کشمیر کی اندرونی خود مختاری بحال کی جائے۔‘‘ صغیر احمد سپریم کورٹ کے ایک سابقہ جج ہیں۔

M. K. Narayanan Sicherheitsberater
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے سن 2006ء میں کشمیر مسئلے کے حل کے حوالے سے مختلف ورکنگ گروپ تشکیل دئے تھےتصویر: AP

کشمیر ورکنگ گروپ نے یہ رپورٹ شورش زدہ ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو بدھ کی شام سونپ دی تھی جس کی تفصیلات جمعرات کو منظر عام پر لائی گئیں۔ ریاست میں بر سر اقتدار جماعت نیشنل کانفرنس کے ایک سینیئر رہنما اور پارلیمانی اور قانونی امور کے ریاستی وزیر علی ساگر نے کہا کہ رپورٹ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ہی پارٹی کی طرف سے حتمی رد عمل ظاہر کیا جائے گا۔

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے سن 2006ء میں کشمیر مسئلے کے حل کے حوالے سے مختلف ورکنگ گروپ تشکیل دئے تھے۔ اسی دیرینہ مسئلے کے حل سے متعلق من موہن سنگھ کی سربراہی میں کئی مرتبہ گول میز کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا گیا، جن میں بحران زدہ ریاست کی مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی گئی تھی۔ تاہم علٰیحدگی پسند اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں نے گول میز اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ان اجلاسوں میں ان جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو بھارت کی حامی ہیں۔

Proteste in Kaschmir
حریت کانفرنس کے سخت گیر دھڑے کے رہنما سید علی شاہ گیلانی کشمیر مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتے ہیںتصویر: AP

سن 1947ء میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے متنازعہ الحاق کے تحت اس مسلم اکثریتی ریاست کو کئی خصوصی حقوق دئے گئے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ داخلی خودمختاری کے تحت دئے گئے بیشتر اختیارات واپس لے لئے گئے۔ اس متنازعہ الحاق کے تحت کشمیر میں وزیر اعظم اور صدر ریاست کے عہدے بھی ہوا کرتے تھے تاہم خارجہ، دفاعی اور مواصلاتی امور پر بھارت کی وفاقی حکومت کا ہی کنٹرول تھا۔

سن 2000ء میں نیشنل کانفرنس کے دور حکومت میں جموں و کشمیر کی اسمبلی نے اتفاق رائے سے ریاست کی اندرونی خودمختاری کی بحالی سے متعلق ایک قرار داد بھی منظور کی تھی لیکن اس وقت نئی دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی والی حکومت نے اسے نامنظور کر لیا۔

Dr. Abdullah Farooq und Omar Abdullah.
شورش زدہ ریاست جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ اپنے بیٹے اور ریاست کے موجودہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو بوسہ دیتے ہوئےتصویر: dpa

بحران زدہ کشمیر میں سن 1989ء میں بھارت کی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔ محتاط اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ بیس برسوں کے دوران کشمیر میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں زخمی ہوئے۔

حقوق انسانی کی متعدد تنظیمیں اور کشمیری علٰیحدگی پسند گروپ ان ہلاک شدگان کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علٰیحدگی پسند اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس کشمیر تنازعے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ خودمختار کشمیر کی حامی جماعت ہے جبکہ عسکری جماعت حزب المجاہدین اس خطے کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں ہے۔

کشمیر میں سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس داخلی خودمختاری کی حامی ہے جبکہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ’سیلف رول‘ یا خود حکمرانی کی وکالت کرتی ہے۔

رپورٹ: خبر رساں ادارے/گوہر نذیر گیلانی

ادارت: مقبول ملک