1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر کا سرد موسم اور مقامی آبادی کی حالت زار

8 جنوری 2022

برف کی سفید چادر سے ڈھکے مکان، کھیت و کھلیان اور منفی درجہ حرارت سےجب دانت بج رہے ہوتے ہیں، تو گرم گرم شلغم اور راجما کا سالن، چاول کےساتھ کھانا اوربعد میں نمکین چائے کی چسکیاں لینا، کشمیر میں موسم سرما کی ایک سوغات ہے۔

https://p.dw.com/p/45I78
کشمیر کا جاڑا اور اس کے مکینوں کی حالت زار
کشمیر کا جاڑا اور اس کے مکینوں کی حالت زارتصویر: Javed Dar/Photoshot/picture alliance

دہلی میں میرے طالب علمی کے دوران میدانی علاقوں کے رہنے والے میرے ساتھی، برف کو دیکھنے، اور منفی درجہ حرارت کو محسوس کرنے کی آہیں بھرتے تھے اور برف کی چادر کا تصور کرکے رومانی دنیا میں کھو جاتے تھے۔ ان بیچاروں کو معلوم ہی نہیں، کہ یہ جاڑا مقامی آبادی کے لیے کس قدر مصیبت لے کر آتا ہے۔

دہلی میں جواہر لال یونیورسٹی کے میرے جو ساتھی یورپ میں قیام کرکے آچکے تھے، اور منفی 10 یا منفی 20 ڈگری سلسیس کا لطف اٹھا چکے ہوتے تھے، تو ان کے لیے وادی کشمیرکے منفی پانچ ڈگری سیلسیس میں کچھ زیادہ جاڑا پن نہیں ہوتا تھا۔ وہ شکایت کرتے تھے کہ کشمیریوں نے جاڑا اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے۔ یورپ کی طرف دیکھو، کس طرح انتہائی شدید سردی میں بھی کام کاج جاری ہوتا ہے۔ ارے بھئی، سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈاووس میں تو اسی موسم میں عالمی اقتصادی فورم کا اجلاس ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ کشمیری کانگڑی (دستی انگیٹھی) لیے اور فرن (لمبا سا گاؤن) پہنے بھی دانت بجا رہے ہوتے ہیں اور کام و کاج سے گویا ان کو فراغت ہوتی ہے۔ یعنی کشمیریوں کو خوب سر پر چڑھایا ہوا ہے یا پھر بھارت کی حکمران جماعت کے بہت سے لیڈران کے بقول (انگریزی میں) ان کے لیے appeasement policy اپنائی جا رہی ہے۔

فرحانہ لطیف ڈی ڈبلیو بلاگر سری نگر کشمیر
مصنفہ: فرحانہ لطیف، سری نگرتصویر: privat

مگر ان کو کون بتائے کہ خود چند دن جاڑے میں کسی کشمیری خاندان کے ساتھ دن گزار کر سردیوں اور برف کے مزے لے کر مقامی آبادی کی حالت زار کامشاہدہ کرلو، جب کئی کئی دن تک بجلی کا نام و نشان نظر نہیں آئے گا، تو ہی کشمیر اور یورپ کے جاڑے کا فرق سمجھ میں آئے گا۔ جنگلات کی لکڑی تو اب ناپید ہوچکی ہے، گیس اور بجلی کی ترسیل ہی بند رہتی ہے، تو اپنے آپ کو اور مکان کو گرم رکھیں تو کیسے۔ پانی کے پائپ جمنے سے بسا اوقات پھٹنے سے تو کئی ماہ تک بغیر واٹر سپلائی ہی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔

اس سارے قضیہ کی جڑ بجلی کی آنکھ مچولی ہے۔ پن بجلی کے وافر وسائل مہیا ہونے کے باوجود یہ خطہ بجلی سے محروم ہے۔ سن 2003 میں، جب میں نویں جماعت کی طالب علم تھی، تو ہمارے ضلع بارہمولہ کے اوڑی علاقے میں سویڈن کی ایک کمپنی دریائے جہلم پر بھارت کے نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک کارپوریشن یعنی این ایچ پی سی کے لیے ایک پاور پراجیکٹ بنا رہی تھی۔ اسی سال ہماری کلاس کو اس پاور پراجیکٹ کا دورہ کرایا گیا۔ بتایا گیا کہ اس کے مکمل ہونے کے بعد ہر گھر بجلی سے روشن ہوگا۔ اور پھر کشمیر کی سردیوں کی صبح و شام بھی یورپ کی طرح جگمگا اٹھیں گی۔ زیر زمین اس منصوبے کا دورہ کرتے ہوئے اور بھاری بھر کم مشینوں کو دیکھتے ہوئے، میں تصور کر رہی تھی، کہ کیسے ہماری قسمت اس پراجیکٹ کے مکمل ہونے سے چمک اٹھے گی۔

مگر یہ پراجیکٹ جب مکمل ہوگیا، تو بتایا گیا کہ اس سے پیدا ہونے والی بجلی کے مالک تو پنجاب، ہریانہ، دہلی اور راجستھان کے صوبے ہیں، کیونکہ انہوں نے ہی اس میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس منصوبے سے نکلنے والی بجلی کی ہائی ٹینشن تاریں میرے سر کے اوپر سے گزرتی ہوئی، ریاست کے باہر کسی نیشنل گرڈ میں بجلی جمع کراتی ہیں۔ اس پراجیکٹ کے آس پاس کے پسماندہ دیہات ابھی بھی بجلی نام کی شے سے نا آشنا ہیں۔ اور تو اور خود جموں و کشمیر حکومت کوبھی این ایچ پی سی سے ہی بجلی خریدنا پڑتی ہے، گویہ کہ اس بجلی کی پیداوار کے لیے ریاست کے ہی آبی وسائل کا استعمال ہوتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہمات میں ان پن بجلی منصوبوں کو ریاست کے کنٹرول میں لانے کے وعدے کیے تھے۔ مگر کسی بھی وعدے نے دن کی روشنی نہیں دیکھی۔

ان تمام پن بجلی گھروں کو جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے ترقی اور روزگار کے ذرائع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جو کہ ایک غلط پراجیکشن ہے۔ منصوبہ بندی کے ریکارڈ کا بنیادی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ این ایچ پی سی کے ذریعہ ان پن بجلی منصوبوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر کے لیے مقامی انجینئروں کی خدمات حاصل نہیں کی گئیں، دیگر ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔ یعنی بجلی تو باہر گئی ہی، مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع  بھی موصول نہیں ہوئے۔ بس غیر ہنرمند مزدوروں کو تب تک بھرتی کیا جاتا ہے، جب تک منصوبے کی تعمیر مقصود ہوتی ہے۔ بعد میں ان کو چائے میں مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔

جب میں نے اوڑی-1 پن بجلی کا منصوبہ دیکھا تو اس وقت مجھے اس چیز کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ منصوبہ کس غیر مالی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے۔ بعد کے سالوں میں جب مجھے سماجی علوم کی تربیت دی گئی تو معلوم ہوا کہ ان پن بجلی منصوبوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر نجی اراضی پر مبینہ قبضہ کرکے بڑے پیمانے پر لوگوں کو بے گھر ہونے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ جیسے وادی گریز میں کشن گنگا پن بجلی پراجیکٹ کی وجہ سے مقامی آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ ان بجلی منصوبوں کی تعمیر اور چلانے کے عمل میں ماحولیات کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کا ذکر بھی کہیں نہیں ہوتا۔ اور جموں و کشمیر کے عوام ان بجلی منصوبوں کی منصوبہ بندی، ملکیت یا فیصلہ سازی میں کہیں نظر بھی نہیں آتے۔

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

ہم وفادا ر نہیں تو بھی تو دلدار نہیں

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں