1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر:  ڈیرھ برس بعد فور جی انٹرنیٹ کی بحالی

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
6 فروری 2021

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر  میں خصوصی دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے بہت سی بندشیں اب بھی عائد ہیں۔

https://p.dw.com/p/3oyfK
Indien Kaschmir Proteste Straßensperre
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ڈیڑھ برس سے بھی زیادہ وقت کے بعد ہفتہ چھ فروری سے تیز اسپیڈ والا فور جی انٹرنیٹ بحال کر دیا گيا ہے۔ اس سے قبل جمعہ پانچ فروری کی شام کو  کشمیر میں انتظامی امور کے ترجمان روہت کنسل نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’جموں و کشمیر کے پورے خطے میں انٹرنیٹ کو بحال کیا جا رہا ہے۔‘‘

سرینگر میں صحافی ظہور حسین نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں اس بات کی تصدیق کی کہ نیٹ ورک مہیا کرنے والی مختلف کمپنیوں نے جمعہ کی درمیانی شب سے فور جی بحال کرنا شروع کیا تھا  اور ’ہفتے کی صبح تک تقریبا سبھی کی اسپیڈ فور جی ہوگئی ہے‘۔

شہر کے ایک اور صحافی پرویز نے بھی ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ انہوں نے، ’’فون پر انٹرنیٹ فراہم کرنی والی مختلف کمپنیوں کے نیٹ ورک کو چیک کیا ہے اور پہلے کے مقابلے میں اب ویڈیو کی کوالٹی بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ اسیپیڈ بھی  بہتر ہوگئی ہے۔‘‘ 

کشمیر کی کاروباری انجمنوں، اداروں اور سرکردہ سیاسی شخصیات نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ عوام کا حق ہے اور بھارتی حکومت نے ایسا کر کے کوئی احسان نہیں کیا ہے۔

مقناطیسی پہاڑ، جن کے اوپر سے پائلٹ بھی پرواز سے بچتے ہیں

پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی کے ایک ترجمان  سہیل بخاری نے بھارتی میڈيا سے بات چیت میں کہا، ’’جموں کشمیر کی پوری عوام کو ایک برس سے بھی زیادہ عرصے سے تیز رفتار والے انٹرنیٹ سے محروم رکھا گيا۔ اس سے صحت، تعلیم، کاروبار سب کچھ متاثر ہوا۔ یہ بحالی ہم پر کوئی احسان نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس پر پابندی ہی نہیں لگنی چاہیے تھی۔‘‘

 بھارت نے پانچ اگست  2019  کو  کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات کو ختم کر تے ہوئے خطے کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں تقسیم کر دیا تھا۔ اس پیش رفت سے کشمیریوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

حکومت نے اس کے رد عمل اور مظاہروں سے بچنے کے لیے  خطے کو لاک ڈاؤن کر کے سخت بندشیں عائد کر دی تھیں اور خطے کا باقی دنیا کے ساتھ مواصلاتی رابطہ بھی مکمل طور پر منقطع کر دیا تھا۔ ان اقدامات سے لاکھوں کشمیری نہ صرف بے روزگار ہو گئے بلکہ تعلیم اور صحت کا نظام بھی مفلوج ہو کر رہ گیا۔

بھارت نے ہند نواز سمیت تمام کشمیری رہنماؤں، سماجی کارکنان، دانشوروں، سرکردہ وکلاء اور انسانی حقوق کے علم برداروں کو بھی قید کر دیا تھا جس میں سے کچھ کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم اب بھی سینکڑوں افراد جیلوں میں ہیں۔

 عدالتی چارہ جوئی اور عالمی دباؤ کے بعد حکومت نے کئی ماہ بعد سلسلہ وار فون سروسز اور پھر انٹرنیٹ شروع کیا تھا، تاہم انٹرنیٹ سروسز برائے نام تھیں کیونکہ ٹو جی کی اسپیڈ سے تعلیم اور کاروباری سرگرمیاں مشکل سے چل پا رہی تھیں۔  

ایک روز قبل ہی امریکا کی نئی انتظامیہ نے کسانوں کے احتجاج کے حوالے سے کہا تھا کہ انٹرنیٹ تک رسائی اور پرامن احتجاج عوام کا نہ صرف حق ہے بلکہ جمہوری قدروں کا اہم جز ہے۔ تاہم کشمیر میں ابھی بھی احتجاجی مظاہروں کی اجازت نہیں ہے اور اس کے ساتھ اب بھی متعدد ایسی پابندیاں عائد ہیں جس کی وجہ سے نقل و حرکت بھی محدود ہے۔

بھارتی حکومت مسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی کا مقصد بھارت مخالف احتجاج اور علیحدگی پسندوں کی جانب سے حملوں کے خطرات کو روکنا ہے۔ یہ علیحدگی پسند کئی دہائیوں سے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی آزادی کے لیے مسلح جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بھارت کا یہ بھی استدلال ہے کہ اس طرح کی پابندیاں کشمیری عوام کے بھارت کے ساتھ انضمام میں مددگار اور معاشی بہتری کا سبب ثابت ہوں گی۔ ساتھ ہی یہ بھارت مخالف گروپوں اور پاکستان سے خطرات میں کمی لانے میں بھی معاون ہوں گی۔ 

کشمیر پر عمران خان کا موقف پاکستان میں زیر بحث

خطہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک دیرینہ متنازعہ مسئلہ ہے اور پاکستان بھارت کے ان متنازعہ اقدامات کی عالمی فورم پر مسلسل مذمت کرتا رہا ہے۔ پانچ فروری کو کشمیریوں کی حمایت کے لیے پاکستان میں سرکاری سطح پر 'یوم یکجہتی کشمیر' منایا جاتا ہے۔ 

’یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا‘

اس موقع کی مناسبت سے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے کوٹلی شہرکا دورہ کیا۔ انہوں نے وہاں عوامی جلسے سے خطاب کے دوران کہا کہ جب دونوں جانب کے کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق ملےگا اور، ''جب آپ کشمیری لوگ پاکستان کے حق میں فیصلہ کریں گے  تو اس کے بعد پاکستان کشمیر کے لوگوں کو یہ حق دےگا کہ وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔یہ آپ سب کا حق ہوگا۔‘‘

عمران خان کے اس بیان کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر کشمیر سے متعلق پاکستان کے دیرینہ موقف سے مطابقت رکھتی ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ وہ کوٹلی شہر میں، ''مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے آئے ہیں کہ پورا پاکستان اور مسلم دنیا آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر مسلم دنیا کا کوئی ملک آپ کی حمایت نہیں کر رہا تو میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ مسلمان ممالک عوام آپ کے ساتھ ضرور کھڑے ہیں۔‘‘  

عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی ہمیشہ حمایت کرتا رہےگا۔ انہوں نے کہا، ''اگر بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے میں سنحیدگی کا مظاہرہ کرے تو ہم دو قدم آگے چلنے کو تیار ہیں۔‘‘

بدھ اور مسلم تہذيبوں سے آرستہ لداخ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید