1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: ’میڈیا بے زبان‘اور ’یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘

24 اپریل 2022

کشمیر کے صحافیوں کو مسلسل حکومتی ایجنسیوں سیکیورٹی فورسز، پولیس اور عسکریت پسندوں کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔ کئی کشمیری صحافیوں کے خلاف کیسز درج کر دیئے گئے ہیں جو کہ ان کی گردنوں پر لٹکتی تلواروں کی مانند ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ALnv
Indien Srinagar | Indischer Soldat während Konvoy der Europäischen Union passiert
تصویر: Faisal Khan/NurPhoto/picture alliance

اگست دو ہزار انیس میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت' خصوصی پوزیشن اور داخلی خودمختاری کے خاتمے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پہلی مرتبہ بحران زدہ خطے کے دورے پر آرہے ہیں۔ ان کے دورے سے محض دو روز قبل ہی جموں کے مضافات میں سنجوان جلاباد نامی علاقے میں ایک خون ریز تصادم میں دو عسکریت پسند اور ایک بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

گزشتہ بتیس ماہ میں کشمیر میں کیا کچھ بدل گیا ہے؟ زمینی حقائق کیا ہیں اور کیا یہاں کا میڈیا آزاد ہے یا اس پر غیر معمولی قدغنیں لگائی گئی ہیں؟

ابھی حال ہی میں 'دی پریس کونسل آف انڈیا‘ کی تین رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ جاری کی جس میں اس ادارے نے کشمیرکے میڈیا کی سنگین صورتحال بیان کی۔ چھتیس صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ بعنوان 'اسٹیٹ آف میڈیا ان جموں اینڈ کشمیر‘ میں اس ادارے نے بتایا کہ کشمیر میں صحافی انتہائی دباؤ اور تناؤ کے شکار ہیں۔

کشمیر کے صحافیوں کو انتہائی سخت ترین حالات کا سامنا ہے۔ انہیں مسلسل حکومتی ایجنسیوں سیکیورٹی فورسز، پولیس اور عسکریت پسندوں کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔

پریس کونسل کی ٹیم میں بھارتی صحافی پرکاش دوبے' کنوینر اور گروپ ایڈیٹر دینیک بھاسکر‘ گربیر سنگھ' دی انڈین ایکسپریس‘ اور ڈاکٹر سمن گپتا' گروپ ایڈیٹر جن مورچا‘ شامل تھے۔ یہ ٹیم جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جانب سے ایک خط کے بعد گزشتہ ستمبر میں کشمیر کے دورے پر آئی تھی اور اس نے ابھی حال ہی میں اپنی سروے رپورٹ جاری کردی۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ مقامی انتظامیہ کشمیر کے صحافیوں پر اعتماد نہیں کرتی اور اسے شبہ ہے کہ یہاں کے بیشتر صحافی علٰیحدگی پسندوں کے مقاصد کے حامی ہیں۔' اس رپورٹ نے جموں و کشمیر پولیس کے انسپیکٹر جنرل وجے کمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سن دو ہزار سولہ سے کشمیر میں صحافیوں کے خلاف انچاس مقدمات درج کئے جا چکے ہیں‘ جن میں آٹھ معاملات انسداد دہشت گردی کے ہیں۔

’کشمیریوں کو بولنے دو‘

پریس کونسل نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ صحافیوں کی طرف سے متاثرہ کنبوں کا بیانیہ یا شہریوں کے انٹرویو کرنا کوئی 'ملک دشمن‘ عمل نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کشمیر کے صحافی اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے کے لئے بالکل آزاد نہیں ہیں اور انہیں مختلف سرکاری اداروں سے سخت ترین دباؤ کا سامنا ہے۔

کشمیری میڈیا پر پابندیوں اور صحافیوں کے خلاف آئے روز مقدمات درج کرنے کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل' انڈیا‘ کے سابق سربراہ اور نامور بھارتی مصنف آکار پٹیل نے ڈوئچے ویلے اردو کو بتایا کہ ''کشمیر میں جمہوری راج نہیں ہے۔ وہاں کے ذرائع ابلاغ اور سول سوسائیٹی پر عتاب ہے۔‘‘

آکار پٹیل کے مطابق کشمیر میں دو ہزار بیس میں متعارف کرائی گئی نئی میڈیا پالیسی صحافتی آزادی پر ایک کھلم کھلا وار ہے۔ ''کشمیری صحافیوں اور مدیروں پر خاص طور سے پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے جیسے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس موجودہ حکومت کے آمرانہ طرز عمل کا توڑ کرنے کے لئے وسائل اور ذرائع نہیں ہیں۔‘‘ ان کے بقول عالمی برادری کشمیر کے میڈیا اور سول سوسائیٹی پر ڈھائے جانے والے مظالم سے نا آشنا نہیں ہے اور اسی وجہ سے عالمی پریس فریڈم انڈیکس کی درجہء بندی میں بھارت بہت نیچے آچکا ہے۔

پیرس میں قائم رپورٹرز بغیر سرحد نامی ادارے نے بھارت کو پریس فریڈم درجہء بندی میں ایک سو بیالیس نمبر پر رکھا ہے۔ افغانستان، زمبابوے، بھوٹان، نیپال اور برازیل جیسے ممالک اس درجہء بندی میں بھارت سے کہیں آگے ہیں۔

دریں اثناء نئی دہلی سے شائع ہونے والے جریدے 'دی کیراوان‘ کی ایک مفصل رپورٹ کے مطابق اگست دو ہزار انیس سے کشمیر کے لگ بھگ دو سو صحافیوں کو اب تک تھانوں میں پوچھ گچھ کے لئے بلایا گیا ہے۔ ان میں بشارت مسعود،عرفان حکیم، پیرزادہ عاشق، نصیر گنائی، گوہر گیلانی، مسرت زہرا، شاہد تانترے،  صفوت زرگر، ہلال میر، راشد مقبول، اظہر قادری، شوکت موٹا، شاہ عباس، انیس زرگر، شاکر میر، آکاش حسن، قرت العین رہبر، فہد شاہ، سجاد گل، کامران یوسف اور وقار سعید کے نام قابل ذکر ہیں۔

متاثرہ صحافیوں کے مطابق پوچھ گچھ کے اس غیر قانونی عمل کے دوران ان سے ناشائستہ اور انتہائی ذاتی سوال بھی کئے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق پوچھ گچھ کا مقصد انہیں ہراساں کرنا ہے۔ جیسے کہ وہ صحافی نہیں بلکہ مسلح شدت پسند ہوں۔ پولیس تھانوں میں ان سے ایک پروفارما کے تحت ان سے ان کی آیڈیالوجی، عقیدے، نظریے، مذہبی تعلق، سفری دستاویزات کی تفصیلات، املاک، آباو اجداد، شریک حیات، رشتہ داروں کے نام اور کام، بچوں کے نام، گاڑی اور ٹیلیفون نمبرات اور دیگر سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں۔ صحافیوں کے بقول اس عمل سے ان کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

’’میں پچھلے ایک برس سے ماہر نفسیات سے صلاح و مشورہ کررہا ہوں۔ علاج و معالجہ کا عمل بھی جاری ہے۔ رات کو نیند نہیں آتی۔ اس لئے نیند کی گولیاں بھی لینا پڑتی ہیں۔ میں ایک نفسیاتی مریض بن چکا ہوں، صحافی نہیں‘‘ وادی کشمیر کے ایک سینیئر صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا۔ اس صحافی کو متعدد مرتبہ پولیس سمن اور پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

خوف کے سائے تلے کشمیر کے صحافیوں پر مختلف تھانوں میں کیس درج کر دیئے گئے ہیں جو کہ ان کی گردنوں پر لٹکتی تلواروں کی مانند ہیں۔ ان کے مطابق کبھی ایک رپورٹ، کبھی ایک تبصرہ، کبھی ایک ٹویٹ کو بنیاد بناکر ان پر مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ انہیں عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور عدالتی عمل کو ہی سزا بنا دیا جاتا ہے۔

اس وقت کشمیر کے کئی صحافی پابند سلاسل ہیں، جن میں سری نگر کے آصف سلطان، پلوامہ کے فہد شاہ اور بانڈی پورہ کے سجاد گل کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے جس کے باعث ایک تا دو سال تک ضمانت ملنا بھی محال ہے۔ آصف سلطان ایک ہزار سے بھی زائد روز تک جیل خانوں میں قید رہے ہیں۔ حال ہی میں چند روز کی رہائی کے بعد انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے۔

دو ہزار انیس میں جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک اور صحافی قاضی شبلی نے بھارت کی ایک جیل میں نو ماہ گزارے۔ جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ایک اور مایہ ناز صحافی کامران یوسف دلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں چھ ماہ تک قید تنہائی میں رہے۔ کئی برس تک عدالتوں کے چکر کاٹنے والے یوسف کو ابھی حال ہی میں تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔ اس جیل میں کئی برس قبل ایک اور کشمیری صحافی افتخار گیلانی بھی مقید رہے۔

کشمیر کے بیشتر صحافی موبائل ٹیلی فون کی نارمل لائن پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کو پختہ یقین ہے کہ ان پر حکام کی کڑی نظر ہے اور وہ جو کچھ کہتے یا لکھتے ہیں اسے کہیں نہ کہیں سنا جا رہا ہے۔ ''حالات اتنے کشیدہ ہیں کہ وٹس ایپ پر بھی اعتماد نہیں رہا ہے۔‘‘ ایک خوفزدہ نوجوان خاتون صحافی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا۔

رواں برس فروری کے اوائل میں کم ازکم تین خواتین صحافیوں کے ہمراہ ایک درجن صحافیوں نے کشمیر سے عارضی ہجرت بھی کی تھی۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئیر تجزیہ کار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جارج آرویل اور کافکا جیسے مصنفین نے جس ‘سرویلنس ریاست' کا خاکہ کھینچا تھا، کشمیر میں اس خاکے کو بھی اب عبور کر لیا گیا ہے۔‘‘

کشمیر میں پیلٹ کے متاثرین کی تاریک زندگیاں

گزشتہ ہفتے سری نگر کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر اعلیٰ فاضلی کو گیارہ سال قبل لکھے گئے ایک مضمون کی پاداش میں دہشت گردی کے ایکٹ ‘یو اے پی اے' کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے گیارہ برس بعد ان کے آرٹیکل کو 'اشتعال انگیز‘ اور 'ملک دشمن' قرار دیا۔

اسی طرح ایک سری نگر میں مقیم بین القوامی قوانین کے ماہر پروفیسر شیخ شوکت حسین کو ایک لاء کالج کے پرنسپل کے عہدے سے زبر دستی برخواست کیا گیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے دو ہزار سولہ میں دلی کے پریس کلب میں معروف مصنفہ ارون دھتی رائے کے ہمراہ ایک سیمینار میں شرکت کی تھی جس میں انہوں نے مبینہ طور پر ‘‘ہندوستان مخالف'' تقریر کی تھی۔

ان واقعات پر جنوبی بھارتی ریاست چنئی سے شائع ہونے والے روزنامہ 'دی ہندو‘ کے نمائندے پیرزادہ عاشق نے اپنی ٹویٹ میں یہ لکھا، ''میری خواہش ہے کہ کافکا کشمیر آتے اور خود دیکھتے اور محسوس کرتے کہ جس درد اور مایوسی کا انہوں نے نقشہ کھینچا تھا وہ کشمیر کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ یقیناً کافکا نے کشمیر کے حالات دیکھ کر خود کو پھانسی پر لٹکایا ہوتا۔‘‘