1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: مودی حکومت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا

10 اگست 2019

بھارت میں مودی حکومت کے نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر کے متنازعہ علاقے کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ یہ درخواست سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3NhK2
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ہفتہ دس اگست کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس جنوبی ایشیائی ملک میں قانونی شعبے سے متعلق خبروں کی ایک ویب سائٹ 'لائیو لاء‘ نے آج بتایا کہ اس درخواست میں بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی ایک بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کی طرف سے ملکی سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ مودی حکومت کے اس فیصلے کو مسنوخ کرے، جس کے تحت چند روز قبل جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

Indien Kaschmir Politiker Omar Abdullah
نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہتصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

اس درخواست میں نیشنل کانفرنس کی طرف سے بھارتی سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر کو بھارتی دستور کے تحت ایک خاص آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کے خاتمے کا نئی دہلی میں مودی حکومت کا حالیہ فیصلہ اس لیے غیر آئینی ہے اور فوراﹰ منسوخ کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے لیے مرکزی حکومت نے جموں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی رضا مندی حاصل کرنے کے بجائے یہ فیصلہ یکطرفہ طور پر کیا ہے۔

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ میں یہ قانونی چیلنج اپنی نوعیت کا وہ پہلا سنجیدہ قانونی معاملہ ہے، جس کے ذریعے مودی حکومت کے اس اقدام کی عدالتی سطح پر مخالفت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس درخواست کی محرک سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی ان دو بڑی علاقائی سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے، جنہیں سیاسی طور پر اس منقسم اور متنازعہ خطے میں اہم ترین 'اسٹیک ہولڈرز‘ سمجھا جاتا ہے۔

یہ بات ابھی واضح نہیں کہ آیا بھارتی سپریم کورٹ اس درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور بھی کر لے گی۔ اس سے قبل بھارتی حکومت کی طرف سے تاہم یہ کہا جا چکا ہے کہ چونکہ ریاست جموں کشمیر کی علاقائی اسمبلی معطل ہے اور اس خطے میں براہ راست صدارتی حکمرانی کا نظام رائج ہے، اس لیے علاقائی اسمبلی کے اختیارات بھی مرکزی پارلیمان کو منتقل ہو چکے ہیں، جس نے باقاعدہ قانون سازی کر کے ہی اس ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Indien Einweihung von Premierminister Modi in Neu-Delhi
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودیتصویر: picture-alliance/Photoshot

ساتھ ہی مودی حکومت کی طرف سے اپنے اس فیصلے کے حق میں یہ بھی کہا جا چکا ہے کہ حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ اسی آئینی شق کے تحت کیا ہے، جس کے تحت مرکز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ بھارتی صدر ریاست میں کسی بھی وقت اس کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر سکتے ہیں اور سیاسی طور پر کیا بھی ایسا ہی گیا تھا۔

نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ، جو ریاست کے ایک سابق وزیر اعلیٰ بھی ہیں، اور سینکڑوں دیگر سیاستدانوں اور سرگرم سیاسی کارکنوں کو بھارتی حکام نے اس فیصلے کے اعلان سے قبل یا اس کے فوری بعد سے گرفتار کر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ بھارتی حکومت کی طرف سے اس خطے میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی سکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے جا چکے ہیں اور گزشتہ اتوار سے وہاں اس لیے کرفیو کے ساتھ ساتھ ایک سکیورٹی لاک ڈاؤن کی کیفیت بھی ہے کہ کشمیری عوام کو نئی دہلی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف پرتشدد مظاہروں سے روکا جا سکے۔

م م / ش ح /  ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں