1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی شہر میں لسانی فسادات

رفعت سعید، کراچی3 دسمبر 2008

گزشتہ 4 دنوں میں پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کہلانے والے شہر کراچی میں جوکچھ ہوا۔ لسانی بنیادوں پر جس انداز سے املاک کو نذرآتش کیاگیا 46 سے زائد افراد کو ہدف بناکر قتل کیاگیا، اس پر ہرذی شعور شہری پریشان اورخوف زدہ ہے۔

https://p.dw.com/p/G7en
چار روز کے دوران ملک کی اقتصادی شہ رگ کہلانے والے شہر کراچی میں 46 سے زائد افراد کو ہدف بناکر قتل کیاگیا۔تصویر: AP

ان فسادات میں اب ہلاکتوں کا سلسلہ کم ضرور ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔ اگر کراچی کی صورتحال کو لندن میں مقیم ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے ان بیانات کے تناظر میں دیکھیں جس میں وہ حکومت سے کراچی میں بڑھتی ہوئی طالبانائزیشن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے تھے اور ساتھ ہی شہریوں کو اسلحہ لائسنس بنوانے اورقبائلی علاقوں سے کراچی منتقل ہونے والے مبینہ طالبان سے محتاط رہنے کی تدابیر بتارہے تھے توپھر کراچی میں حالیہ خونریزی ہنگاموں کی وجہ بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے۔

Pakistan Autobombe in Karachi vor US Konsulat
پچھلے سال کراچی شہر میں بارہ مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات کے الزامات بھی ایم کیو ایم پر لگائے گئے تھے۔ ان واقعات میں پچاس سے زائد شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے جبکہ درجنوں گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا تھاتصویر: AP

لیکن حیران کن طورپر خودپیپلز پارٹی کی حکومت اوران کی دوسری حلیف جماعت اے این پی اس بات کو مانے کے لیے آمادہ نہیں کہ کراچی میں قبائلی علاقوں سے ہجرت کرکے طالبان آ رہے ہیں۔

شاید کراچی کو کسی بڑے لسانی فساد سے بچانے کے لیے سینچر کے روز پیپلز پارٹی، ایم کیوایم اور اے این پی کے رہنماﺅں نے کراچی شہرکا دورہ کیا۔ ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر مشترکہ پریس کانفرنس میں شہر کی تعمیرو ترقی اور شرپسندوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا عہد کیا گیا۔ جس وقت یہ پریس کانفرنس ہورہی تھی عین اسی وقت شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ جلاﺅ گھیراﺅ کے واقعات میں متعدد افراد ہلاک ہوچکے تھے۔

Unruhen in Karachi
ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کراچی میں بڑھتی ہوئی طالبانائزیشن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں اور ساتھ ہی شہریوں کو اسلحہ لائسنس بنوانے اورقبائلی علاقوں سے کراچی منتقل ہونے والے مبینہ طالبان سے محتاط رہنے کی تدابیر بتارہےہیںتصویر: AP

صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے جو صدر آصف علی زرداری کے معتمد دوست ہونے کی وجہ سے وزیراعلی سے زیادہ بااختیارسمجھے جاتے ہیں، دعوی کیا کہ انہوں نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی ماردیں مگر شہر میں قتل وغارت کی وارداتیں ہوتی رہیں۔ پختون اور اردو بولنے والوں کی املاک پر شرپسند حملہ کرتے رہے لیکن انجانی مصیبتوں کی بنا پر پولیس اورنیم فوجی رینجرز کے دستوں نے روک تھام کے بجائے صرف تماشائی کا کردار اداکیا۔

Unruhen nach Demo in Karachi
مہاجر قومی موومنٹ اردو بولنے والے شہریوں کی جماعت تھی جس کا نام بعد میں تبدیل کر کے متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیاتصویر: picture-alliance/dpa

مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں بلووں اورہنگاموں کی اصل فریق ایم کیوایم اوراے این پی ہیں لیکن دونوں جماعتوں کے رہنماﺅں کے اخباری بیانات اورعملی اقدامات میں واضح تضاد نظرآتا ہے۔ دونوں جماعتیں 1987میں کراچی میں ہونے والے خونریزلسانی فسادات کے بعد سے ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ حکومت ایم کیوایم اوراے این پی تینوں کراچی میں لسانی فسادات کروانے میں کسی چوتھے فریق کے ملوث ہونےکی نشاندہی کررہے ہیں مگراس بات کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ تیسرا فریق کون ہے۔


بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں لسانی بنیادوں پر کشیدگی دراصل بلدیاتی انتخابات کی تیاری ہے کیونکہ کراچی کاکنٹرول حاصل کرنے کے لیے حالیہ دنوں میں حکومت کی دونوں حلیف جماعتیں ۔ ایم کیوایم اور اے این پی علٰیحدہ علٰیحدہ حیثیت میں حکومت کی حریف ہوں گی۔ حکومت اوراس کی حلیف جماعتیں اس ناجائز اسلحہ کی برآمدگی کی بات نہیں کرتیں جوکراچی شہر میں موجود ہے۔

مختلف سیاسی گروپوں کی طرف سے جدید ہتھیاروں کی نمائش اور روزانہ ہوائی فائرنگ جہاں معصوم اور بےگناہوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہے وہیں عوام میں عدم تحفظ کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے۔ شہر میں سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے ورکر بھی اسلحہ لے کر کھلے عام گھومتے ہیں۔ یہ مناظر حکومت پولیس اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں ہے۔