1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی: جرمن ثقافت کے دلکش رنگ

5 دسمبر 2012

کراچی شہر کی ثقافتی زندگی میں اس وقت بہار آ گئی، جب گزشتہ دنوں گوئٹے انسٹیٹیوٹ نے ایک ساتھ ایسے کئی ثقافتی اور تعلیمی پروگرام منعقد کیے، جو پاکستان اور جرمنی کے دو طرفہ ثقافتی تعلقات کو سامنے رکھ کر بنائے گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/16wDI
تصویر: DW/R.Saeed

اس جرمن ثقافتی مرکز کی طرف سے منظم کی گئی سرگرمیوں میں لیکچرز، نمائشیں، کنسرٹ، فلم شو، غرض سب کچھ ہی شامل تھا۔ نوجوانوں کی دلچسپی کو سامنے رکھتے ہوئے خاص طور پر کئی ایسی تقاریب منعقد کی گئیں، جن میں جرمنی میں اور جرمن مدد سے تعلیمی مواقع کی تشہیر کی گئی۔

ان میں سے ایک پروگرام پاکستانی اسکولوں کے ساتھ جرمن پارٹنرشپ کو منانے کا تھا۔ یہ وہ اسکول ہیں، جہاں جرمن زبان پڑھائی جا رہی ہے۔ اس تقریب میں کراچی کے کئی اسکولوں کے بچوں اور بچیوں نے گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں بچوں کے میلے میں شرکت کی۔

تعلیم کے حوالے سے ایک ورکشاپ جرمنی کے پیشہ ورانہ تربیت کے نظام کے حوالے سے منعقد کی گئی۔گوئٹے انسٹیٹیوٹ نے پاکستان کے دو اداروں کے ساتھ پیشہ ورانہ تربیت دینے کے حوالے سے معاہدے کیے ہیں اور اس پروگرام میں انہی باتو ں پر تقریریں کی گئیں۔ اس پروگرام میں بھی پاکستانی نوجوانوں نے بہت دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور بڑی تعداد میں شرکت کی۔
 

’جرمنی آن دی روڈ‘ نامی نمائش کے اففتاح کے موقع پر جرمن قونصل جنرل ڈاکٹر ٹیلو کلینر اور کراچی چیمبرز آف کامرس کے صدر میاں ابرار احمد
’جرمنی آن دی روڈ‘ نامی نمائش کے اففتاح کے موقع پر جرمن قونصل جنرل ڈاکٹر ٹیلو کلینر اور کراچی چیمبرز آف کامرس کے صدر میاں ابرار احمدتصویر: DW/R.Saeed

اسی طرح سائنسی تحقیق کے حوالے سے تعلیمی تبادلے کے جرمن ادارے DAAD کے سلسلے میں بھی ایک پروگرام کیا گیا، جس میں پاکستانی اور جرمن ماہرین کے دونوں ممالک میں کام کرنے کے مواقع کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔
 

کراچی کے صحافیوں کی خاص دلچسپی جرمن صحافی انگرڈ میولر کے ساتھ منائی گئی شام میں رہی، جس میں انہوں نے اپنی کتاب "روشنیوں کے شہر" پر بات کی۔ یہ کتاب کراچی پر ہی لکھی گئی ہے۔
موسیقی کے شائقین کے لیے گوئٹے انسٹیٹیوٹ نے اس بار کئی پروگرام منعقد کئے۔ ان میں سیکسوفون نواز پیٹر واگنر اور نوجوان پاکستانی موسیقار آصف سنائی کا کنسرٹ شائقین میں سب سے زیادہ مقبول رہا۔ اس پروگرام میں ایک بڑی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی۔

جرمن پیانو نواز تھوماس ہٹزل برگر کا کنسرٹ بھی موسیقی کے شائقین میں بہت مقبول ہوا۔ وہ بازل کی میوزک اکیڈمی سے تربیت یافتہ ہیں اور سولو پیانو بجانے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔

پاکستانی صوفی موسیقی کے شائقین کے لیے پیٹر پانکے کی آمد بھی ایک بڑا موقع تھا۔ پیٹر نے دنیا بھر کی صوفی موسیقی پر بہت کام کیا ہے اور ان کا اس حوالے سے لیکچر بہت دلچسپ تھا۔

جرمن معیشت کے حوالے سے منعقد کی گئی نمائش "جرمنی آن دی روڈ" (جرمنی ترقی کی شاہراہ پر) شاید ان تمام پروگراموں میں سب سے زیادہ مقبول رہا۔ پورے دن کی اس نمائش میں جرمن کمپنیوں نے خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔

جب شہر میں خوف و ہراس کا ماحول ہو تو عموماً غیر ملکی کاروباری لوگ ہمّت نہیں کرتے کہ آگے آئیں لیکن اس نمائش میں جرمن تاجروں کی دلچسپی نے ثابت کیا کہ وہ اس شہر کے حالات سے ڈرنے والے نہیں۔کراچی والوں نے بھی جوق در جوق اس نمائش میں شرکت کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
 

ان سرگرمیوں کے دوران جرمنی کے بارے میں ہر طرح کی معلومات فراہم کی جاتی رہیں
ان سرگرمیوں کے دوران جرمنی کے بارے میں ہر طرح کی معلومات فراہم کی جاتی رہیںتصویر: DW/R.Saeed

مشہور جرمن ناولسٹ ہیرمن ہیسے (Hermann Hesse) یورپ اور امریکا میں تو شہرت رکھتے ہی ہیں، کراچی میں بھی ان کے چاہنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ بقول نامور ادیب اور نقاد آصف فرخی کے ان کے کئی جاننے والے ایسے ہیں، جو اُنہیں صرف اس لئے جانتے ہیں کہ انہوں نے ہیسے کی کتاب سدھارتھ کا ترجمہ اردو میں کیا تھا۔

پچھلے دنوں گوئٹے انسٹیٹیوٹ کراچی میں ہیسے کی زندگی اور کام پر ایک مقالہ پیش کیا گیا، جو انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نیگرا نے خود لکھا تھا۔ ایک بڑی تعداد میں ہیسے اور جرمن ادب کے چاہنے والوں نے اس تقریب میں شرکت کی۔

ایک جاپانی ٹیکنالوجسٹ، جس نے بچپن میں ہیسے کے ناول پڑھے تھے، ایک پاکستانی ادیب، جن کے لیے ہیسے ان کی جوانی کی عظیم یاد ہے، ایک نوجوان خاتون، جن کا خیال ہے کہ آج بھی ایسے لکھاریوں کے لیے پاکستان جیسے ملک میں خاصی جگہ ہے، غرض ہر قسم کے لوگ گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں جمع تھے۔
گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی ان تقاریب میں شرکت کرنے والے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک مدت بعد اس ادارے نے ایک ساتھ اس تعداد میں تقاریب منعقد کر کے کراچی والوں کے دل جیت لیے ہیں۔ شاید اس شہر کو اسی قسم کی زندگی کی ضرورت ہے۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: امجد علی