1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کانگو بحران، تازہ صورتحال

25 نومبر 2008

ڈیمو کریٹک ریپبلک کانگو کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اولوسے گون اوباسانجو نے کانگو کے صدر جوزف کابیلا پر زور دیا ہے کہ اس افریقی ملک میں قیام امن کے لیے انہیں باغیوں سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/G1yf
نائجیریا کے سابق صدر اوباسانجو کا کہنا ہے کہ جنرل نکونڈا کے مطالبات جائز ہیں۔تصویر: AP

نائجیریا کے سابق صدر اوباسانجو کا کہنا ہے کہ جنرل نکونڈا کے مطالبات جائز ہیں۔ اس کے برعکس کانگو حکومت نے باغیوں سے براہ راست مذاکرات کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب مذاکرات گوما میں طے پانے والے مذاکراتی عمل کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کیے جائیں۔

BdT- Kongo Flüchtlinge Kinder Goma
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ کانگو کی لڑائی کے تمام فریقین نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔تصویر: AP

ادھر جنرل نکونڈا نے زور دیا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی ہتھیار نہیں ڈال رہے بلکہ حکومتی فوج اور انتظامیہ سے ات‍حاد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متحد ہونے کا مطلب ہتھیار ڈالنا نہیں، اس کا مطلب ہے آگے بڑھ کر ہاتھ ملانا۔

جنرل نکونڈٓا نے حکومت سے براہ راست مذاکرات، اقلیتیوں کے تحفظ،، باغیوں کی نیشنل آرمی میں شمولیت اور اپنے زیر قبضہ علاقوں کے منتظمین کے حکومتی منتظمین کے ساتھ انضمام کا مطالبہ کیا تھا۔

Flüchtlingsfrauen im Kibati Camp im Kongo
جنرل نکونڈا نے زور دیا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی ہتھیار نہیں ڈال رہے بلکہ حکومتی فوج اور انتظامیہ سے ات‍حاد کر رہے ہیں۔تصویر: picture-alliance/ dpa

دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ کانگو کی لڑائی کے تمام فریقین نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ ان کے مطابق کانگو کی حکومتی فوج اور لاراں نکونڈا کے عسکریت پسند، قتل و غارت، نسل کشی، جنسی زیادتیوں اور پرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔

بان کی مون نے اس حوالے سے سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ کا ‍حوالہ دیا جس میں جولائی سے نومبر تک کے عرصے میں کانگو کی صورتحال بیان کی گئی ہے۔

Kongo Flüchtlinge
اب تک متاثرہ علاقوں سے ایک ملین افراد نقل مکانی بھی کرچکے ہیں۔تصویر: AP

کانگو کے بارے میں ہیومین رائٹس واچ نامی تنظیم نے بھی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں 2006 کے انتخابات میں کانگو حکومت پر سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد کے استعمال کا الزام لگایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کانگو کی افواج نے اپوزیشن کے خلاف مہم کے دوران دارالحکومت کنشاسا اور مغربی صوبے باس کانگو میں 500 افراد کو ہلاک کیا۔ تاہم جوابا حزب اختلاف کی جماعتیں بھی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہیںِ۔

داخلی بدامنی کے شکار افریقی ملک کانگو میں جنرل نکونڈا، کانگو کی فوج اور روانڈا کے ہوتو باغیوں کے درمیان گزشتہ پانچ دہائیوں سے نسل در نسل جاری سہ فریقی لڑائی میں اب تک براہ راست یا بالواسطہ طور پر کل 50 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ متعدد افراد آج بھی لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں سے ایک ملین افراد نقل مکانی بھی کرچکے ہیں۔