1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کانگریس پارٹی کی ’ جے ہو‘ ہوگئی

افتخار گیلانی، نئی دہلی16 مئی 2009

بھارتی ووٹروں نے ایک بار پھر تمام ایگزٹ پولز اور سیاسی پنڈتوں کی قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے کانگریس پارٹی اور اس کے اتحادیوں کو فیصلہ کن ووٹ دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Hrmx
کانگریس کی فتح کا جشنتصویر: AP

پندرہویں عام انتخابات کے اب تک کے نتائج اور رجحانات کے مطابق حکمراں کانگریس پارٹی کی قیادت والے متحدہ ترقی پسند اتحاد UPA کو برتری حاصل ہوگئی ہے ۔ دوسری طرف اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والے قومی جمہوری محاذ NDA نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔

ایگزٹ پولز میں کہا گیا تھا کہ یو پی اے کو این ڈی اے پر معمولی برتری حاصل ہوسکتی ہے۔ تاہم جو نتائج سامنے آئے ہیں ان سے یہ فرق 100سے زیادہ سیٹوں کا دکھائی دے رہا ہے۔آٹھ سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب 543 رکنی پارلیمان میں کسی پارٹی کو 200سے زائد سیٹیں ملی ہوں ۔

Indien Parlamentswahlen 2009
کانگریس کی صدر سونیا گاندھیتصویر: UNI

کانگریس پارٹی کی صدر اور یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے نتائج آنے کے فورا بعد عوام کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھی ان کی حکومت کو دوبارہ اقتدار تک پہنچانے کے لئے عوام کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ عوام نے ان کی حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد کیا اور ایک سیکولر حکومت کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام سیکولر پارٹیوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک سیکولر اور مستحکم حکومت قائم کرنے میں مدد کریں۔ انہوں نے تمام سیکولر پارٹیوں سے اپنے اختلافات اور تلخیوں کو فراموش کرکے حکومت سازی میں مدد دینے کی اپیل کی۔

اس موقع پر سونیا گاندھی نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ ہی نئے وزیر اعظم ہوں گے۔خیال رہے کہ کانگریس پارٹی کے کارکنوں کا ایک حلقہ راہل گاندھی کو وزیر اعظم بنانے کے لئے مسلسل زور دیتا رہا ہے۔ سونیا گاندھی نے کہا کہ راہل گاندھی، ان کی اور ان کی پارٹی کی خواہش ہے کہ ڈاکٹر سنگھ ہی ملک کے وزیر اعظم ہوں۔ بہر حال ڈاکٹر من موہن سنگھ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بعد ایسے دوسرے وزیر اعظم ہوجائیں گے جو پہلی مدت مکمل کرنے کے بعددوسری بار عہدہ سنبھالیں گے۔

بی جے پی نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ بی جے پی کے ترجمان روی شنکر پرسادنے کہا کہ عوام نے کانگریس کے حق میں ووٹ دیا ہے اور ان کی پارٹی عوام کی رائے کا احترام کرتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہوگا کہ پارٹی بالکل حاشیے پر چلی گئی ہے۔ بی جے پی کے ذرائع نے تسلیم کیا کہ ان کے امیدوار ورون گاندھی کی مسلم مخالف تقریروں سے پارٹی کو فائدہ ملنے کے بجائے نقصان ہوا ہے۔ ورون گاندھی بہر حال انتخاب جیت گئے ہیں۔

Wahlen in Indien 2009
بی جے پی کے رہنما ارون جیٹلی انتخابی مہم کے تحت لگائے گئی ایل کے اڈوانی اور راجناتھ سنگھ کی طویل القامت تصاویر کے قریب سے گزر رہے ہیںتصویر: AP

ان انتخابات کے نتائج نے لال کرشن اڈوانی کے وزیر اعظم بننے کی امیدوں کا بھی خاتمہ کردیا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔جب ہم نے روی شنکر پرساد سے پوچھا کہ کیااڈوانی کا دور اب ختم ہوگیا ہے توانہوں نے اس کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ اڈوانی ایک قومی رہنما ہیں اور رہیں گے۔تاہم ذرائع کی مطابق اڈوانی نے سیاست سے چھوڑنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

اس الیکشن میں کئی نئی باتیں سامنے آئی ہیں ۔ مثلا ووٹروں نے ان حکومتوں کو ووٹ دیا جنہوں نے عوامی فلاح و بہبود کے لئے کام کئے۔ حالانکہ بھارت میں عام رجحان یہ ہے کہ حکمراں جماعت کو عوام کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔لیکن اس بار ووٹروں نے حکومتوں کو کارکردگی کی بنیاد پر مثبت ووٹ دیے اور دہشت گردی، سلامتی، طالبان کےخوف، ذات پات اور فرقہ پرستی جیسے موضوعات کو مسترد کردیا۔ انہوں نے من موہن سنگھ حکومت کے سب سے اہم پروجیکٹ قومی دیہی روزگار گارنٹی منصوبہ اور کسانوں کے قرضوں کی معافی جیسی اسکیموں کی تائیدکی۔ووٹروں نے قومی پارٹیوں کو ووٹ دیا اور بالعموم علاقائی پارٹیوں کو مسترد کردیا۔

انتخابات کے نتائج نے بائیں بازو کی جماعتوں کو کافی مایوس کیا ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما اے بی بردھن نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی اب اپوزیشن میں بیٹھے گی اور عوام کے مسائل کو اٹھائے گی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 1925 میں قائم ہوئی ملک کی دوسری سب سے پرانی پارٹی سی پی آئی کو اب اپنی قومی حیثیت بچانے میں مشکل آسکتی ہے۔ مغربی بنگال میں بھی بائیں محاذ کو زبردست جھٹکا لگاہے۔کانگریس اور ترنمول کانگریس اتحاد نے چوتھائی صدی سے زیاد ہ عرصے سے چلے آرہے اس کے غلبے کو مسمار کردیا۔ ترنمول کانگریس کی رہنما ممتا بنرجی نے کہا کہ عوام نے بائیں محاذ کو مسترد کردیا ہے۔

Vorsitzende der RJD Lalu Prasad Yadav
راشٹریہ جنتا دل کے صدر لالو پرساد یادوتصویر: Fotoagentur UNI

اس الیکشن میں راشٹریہ جنتا دل کے صدر لالو پرساد یادو اور لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام ولاس پاسوان کو بھی زبردست جھٹکا لگا ہے ۔ دونوں ہی پارٹیاں بہار میں جنتا دل یونائٹیڈ کے سامنے ٹک نہیں پائیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بہار میں ووٹروں نے وزیر اعلی نتیش کمار کے کاموں کی بنیاد پر ووٹ دیے۔ رام ولاس پاسوان حاجی پور سے دوبارہ منتخب ہونے میں ناکام رہے حالانکہ ا س سے پہلے وہ یہاں سے ریکارڈ ووٹوں سے جیت چکے ہیں۔ لالو پرساد کو بھی دو میں سے ایک حلقے میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اور سابق وزیر دفاع ملائم سنگھ کی قیادت والی سماج وادی پارٹی کو بھی اترپردیش میں امید سے بہت کم کامیابی ملی ہے۔ لیکن اس الیکشن نے کانگریس پارٹی کو اترپردیش میں ایک نئی زندگی عطا کی ہے۔ اس کا سہرا مسلمانوں کے سرجاتا ہے ۔ خیال رہے کہ 1992 میں بابری مسجد کی انہدام کی وجہ سے ریاست کے مسلمان کانگریس پارٹی سے کافی ناراض تھے لیکن اس مرتبہ انہوں نے اسے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔

دریں اثناوزیر اعظم نے پیر کو کابینہ کی میٹنگ طلب کی ہے جس میں وہ اپنے عہدے سے استعفی دیں گے جس کے بعد وہ صدر سے مل کر نئی حکومت بنانے کا دعو ی پیش کریں گے اور کانگریس پارٹی کو نئی حکومت بنانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ اس دوران پورے ملک میں کانگریس پارٹی کے دفاتر میں جشن منانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔