1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل کی سڑکوں پر بچے بقاء کی جدوجہد میں مصروف

27 اکتوبر 2011

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شورش زدہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں قریب پچاس ہزار بچے ایسے ہیں، جن کی ایک بڑی تعداد اپنے کنبے کی واحد کفیل ہے۔

https://p.dw.com/p/12zvF
تصویر: AP

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کابل کی سڑکوں پر تلاش روزگار میں سرگرداں دو بچوں کی کہانی بیان کی ہے۔ ان میں سے ایک نو سالہ احمد اور دوسری آٹھ سالہ خاطرہ ہے۔ احمد پلاسٹک کی تھیلیاں بیچتا ہے جبکہ خاطرہ بھی یہی مزدوری کرتی ہے مگر اسے لوگوں کا مذاق بننے سے بچنے کے لیے لڑکوں والے کپڑے پہننا پڑتے ہیں۔ خاطرہ کے والد کی اجرت اتنی نہیں کہ اس سے پورا گھر چل سکے اس لیے وہ روز خود مزدری پر نکلتے وقت اپنی کم سن بیٹی کو بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ احمد کا کہنا ہے کہ وہ دن بھر کی مشقت کے بعد بمشکل چالیس یا پچاس افغانی کمالیتا ہے۔

افغان سماجی کارکنوں کے مطابق کابل میں موجود بچوں کی تعداد یو این کے اندازوں سے بھی زیادہ ہے، خشک سالی اور دو دراز علاقوں میں بد امنی کے سبب اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

Schule unter freiem Himmel
ایک دیہی علاقے میں قائم اسکول کا منظرتصویر: AP

افغانستان کے 34 میں سے پانچ صوبوں میں بچوں کے بہبود کے لیے سرگرم غیر سرکاری ادارے آشیانہ کے ڈائریکٹر محمد یوسف کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر مزدوری کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ’’ اس کی متعدد وجوہات ہیں، پاکستان اور ایران سے مہاجرین کی بڑی تعداد میں واپسی، ملک کے مختلف حصوں میں خشک سالی اور سلامتی سے جڑے مسائل نے لوگوں کو بڑے شہروں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘

آٹھ سالہ خاطرہ کے گھر میں والدہ اور والد کے علاوہ اس کے دو چھوٹے بھائی بھی ہیں۔ اپنے گھر کی حالت بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’’میرے والد جوتوں کا کاروبار کرتے تھے مگر انہیں نقصان ہوا اب وہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے دوسرا کاروبار نہیں کرسکتے، میں اگر لڑکوں کے کپڑے پہن کر مزدوری نہ کروں تو گھر میں کھانہ نہیں پک پائے گا۔‘‘  

Bundeswehrsoldat in Kabul
کابل میں جرمن فوجی دستے معمول کے گشت کے دورانتصویر: AP

اے ایف پی کے مطابق خاطرہ جیسے سینکڑوں بچے روزانہ افغان دارالحکومت کی سڑکوں پر کچرا چننے، جوتے سلائی کرنے، سائیکل کی مرمت کرنے اور پلاسٹک کے تھیلے بیچنے جیسے کام کرکے قریب دو ڈالر ’اسی افغانی‘ کماتے ہیں۔ شہر کی مجوعی آبادی ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔

افغان وزارت تعلیم کے مطابق اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں ماضی کے مقابلے میں کچھ اضافہ ہوا ہے جو امید کی ایک کرن ہے۔ وزارت کے مطابق 2002ء میں ایک دس لاکھ بچے اسکول میں رجسٹر ہوئے تھے مگر اس سال ستر لاکھ بچے پرائمری سطح پر اسکولوں میں رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ اے ایف پی کے تبصرے کے مطابق معاشی بدحالی کے سبب ماضی میں دیکھا گیا کہ بچے کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزدوری پر مجبور ہوئے ہیں۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: امتیاز احمد