1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل: طالبان کے دور میں اور اُس کے بعد

2 اگست 2011

2001ء میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا توکابل کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اب اس شہر کے باسیوں کی تعداد 4 سے لے کر 5 ملین تک کے قریب ہے۔

https://p.dw.com/p/124ul

افغان دارالحکومت میں ہونے والی ترقی شہر کے مغربی حصے ’کارتہ سہ‘ میں نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ حصہ نئےکابل کی شان و شوکت کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ یہاں ہر جانب تعمیراتی کام جاری ہے۔ ہر جانب بجری پڑی دکھائی دیتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ پورا علاقہ ایک تعمیراتی منصوبہ ہے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور میر واعظ نےکہا، ’’تعمیراتی کام کا مطلب ہے سرمایہ کاری اور امید‘‘۔

ایک وقت تھا جب ’کارتہ سہ‘ کابل کا ایک عام سا علاقہ تھا۔ پھر جنگ شروع ہوئی اور اس علاقے میں زبردست تباہی ہوئی اور ہر جانب کھنڈر دکھائی دینے لگے۔ پھر یکدم یہاں دبئی کے انداز میں بڑے بڑے لگژری بنگلے تعمیر ہونا شروع ہوئے۔ جس طرح متعدد پاکستانی تاجر اپنی کوٹھیوں میں سنہرے رنگ کے بڑے بڑے ستون تعمیر کرواتے ہیں، ویسی ہی تعمیرات یہاں بھی نظر آنا شروع ہو گئیں۔

Kabul Viertel Karte Seh
طالبان کودوسروں کو تکلیف دینے میں بہت مزا آتا تھا، حاجی مرادتصویر: dw

’کارتہ سہ‘ کے قریب پُلِ سرخ وہ علاقہ ہے، جوامیری اور غریبی کا سنگم کہلاتا ہے۔ یہاں مختلف قومیں آباد ہیں اور یہاں ان کا ایک بہترین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کی صرف مرکزی شاہراہ ہی واحد پختہ سڑک ہے۔ یہاں کے بازار میں ہر دکاندارکی اپنی ایک الگ ہی کہانی ہے۔ حاجی مراد علی ایک بیکری کے مالک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ طالبان نے انہیں کم از کم 32 مرتبہ ڈرایا دھمکایا۔ ’’اگرکوئی نئےکپڑے پہن کر بھی باہر آجائے تو طالبان آجاتے تھے اور تاروں سے اسے مارتے پیٹتے تھے۔ انہیں دوسروں کو تکلیف دینے میں بہت مزا آتا تھا۔ وہ یہ سب کچھ صرف پیسوں کے لیے کرتے تھے۔‘‘

اس دوران کابل میں انٹرمیڈیٹ پاس کرنے والے نوجوانوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ سے سرکاری یونیورسٹیوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ اسی وجہ سے نجی تعلیمی ادارے طلبہ و طالبات کی علم کی پیاس بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان میں سے ایک ابن سینا انسٹیٹیوٹ بھی ہے۔ علی امیری اس ادارے کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک مدت تک ہزارہ قوم کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ وہ نہ تو فوج میں جا سکتے تھے اور نہ ہی وہ سیاست یا قانون کی تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔ ’’اب یہ تمام پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں اور وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘

Kabul Viertel Karte Seh
ابن سینا انسٹیٹیوٹ کے300 طلبا میں سے زیادہ تر لڑکیاں ہیںتصویر: dw

ابن سینا انسٹیٹیوٹ کے300 طلبا میں سے زیادہ تر لڑکیاں ہیں۔ خواتین کو فیس میں رعایت بھی جاتی ہے۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ نے بتایا کہ وہ سیاست سے دور ہی رہنا چاہتی ہے کیونکہ اس سے صرف مسائل میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ ’’میں نے قانون پڑھنے کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ میں زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔

ایک اور طالبہ نے بتایا کہ خواتین کے لیے صرف کابل میں ہی مواقع موجود ہیں۔ صرف یہی وہ شہر ہے، جہاں کوئی بھی لڑکی اپنی مرضی سے سر ڈھانپ سکتی ہے۔ ورنہ دیگر شہروں میں تو حجاب لینا تقریباً ضروری ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ دیہی علاقوں میں تو عورتوں کا کام صرف بچے پیدا کرنا ہے۔ ’’چند خواتین تو ایسی ہیں، جنہوں نے 18بچوں تک کو بھی جنم دیا ہے۔‘‘

رپورٹ:مارٹن گیرنر/ ترجمہ: عدنان اسحاق

ادارت : مقبول ملک