1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈپریشن کی وجہ سیروٹونین کی کمی نہیں، نئی تحقیق

5 اگست 2022

ڈپریشن کی وجہ عموماﹰ دماغ میں سیروٹونین کی کم سطح کو قرار دیا جاتا رہا ہے، تاہم ایک تازہ تحقیق میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ڈپریشن کا نیورو ٹرانسمیٹر سیروٹونین سے کوئی زیادہ لینا دینا نہیں ہوتا۔

https://p.dw.com/p/4FBHH
Symbolbild | Doomscrolling
تصویر: Thomas Trutschel/photothek/IMAGO

آپ یقیناﹰ ڈپریشن کی وجہ سمجھنے کے لیے 'کیمیائی عدم توازن کا نظریہ‘ استعمال کرتے رہے ہوں گے۔ اس نظریے کے مطابق دماغ میں نیوروٹرانسمیٹر سیروٹونین یا 5-HT کی سطح میں کمی ڈپریشن کے مرض کا باعث بنتی ہے۔

جرمنی میں ڈپریشن کا بڑھتا ہوا مسئلہ

کمزور دل جنسی فعل بھی کمزور کر دیتا ہے

سیروٹونین کا نظریہ

اس نظریے کا آغاز 1960ء کی دہائی میں ہوا، جب ڈاکٹرز نے موڈ بہتر کرنے کے لیے ادویات کا استعمال کیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ سیروٹونین کی سطح میں اضافہ کر کے کسی مریض کا موڈ بہتر کیا جا سکتا ہے۔ تب سے اسے ڈپریشن کی سادہ سی وضاحت سمجھ لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر ڈپریشن کے علاج کے لیے ایس ایس آر آئی (سیلیکٹیو سیروٹونین ریوپٹیک اِنہیبیٹر) ادویات مثلاﹰ پروزیک دی جانے لگی جو دماغ میں سیروٹونین کی سطح میں اضافہ کرتی ہے۔

تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصے سے مانا جانے والا یہ نظریہ اس پیچیدہ معاملے کا درست انداز نہیں۔

سیروٹونین کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں

تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سیروٹونین کی سطح میں کمی کے ڈپریشن کی بیماری سے کسی تعلق کے 'کوئی واضح شواہد نہیں‘ ملے ہیں۔

اس مطالعے میں 361 سائنسی مطالعاتی رپورٹوں کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن اور خون میں سیروٹونین کی سطح کے درمیان کوئی تعلق نہیں دیکھا گیا۔ مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محققین کو ڈپریشن کے حامل افراد اور عام افراد کے دماغوں میں سیروٹونین ریسپٹرز اور ٹرانسپورٹرز کی موجودگی کے درمیان کوئی فرق نہیں ملا ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے محقق اور کنسٹلٹنٹ ماہر نفسیات مائیکل بلوم فیلڈ کے مطابق، ''ڈپریشن کی کئی علامات ہوتی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب تک میں نے ایساکوئی واقعی سنجیدہ سائنسدان دیکھا ہو، جو ڈپریشن کی وجہ ایک سادہ سے کیمیائی عدم توازن کو سمجھتا ہو۔‘‘

گو ماہرین اس مطالعاتی رپورٹ کے نتائج پر حیران نہیں ہیں، تاہم کئی افراد سیوٹونین کے ڈپریشن میں کردار سے متعلق ان نتائج سے بالکل بھی اتفاق نہیں کر رہے۔

بلوم فیلڈ کے مطابق، ''ممکن فقط یہ ہے کہ بعض افراد میں بعض طرز کے ڈپریشن میں شاید کہیں سیروٹونین نظام میں اونچ نیچ سے ان کی ڈپریشن کی علامات پر کچھ فرق پڑتا ہو۔ تاہم اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ ڈپریشن جیسے معاملے کو ایک سادہ سے کیمیائی عدم توازن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرنا، طبی تصور میں بالکل کوئی معنی نہیں رکھا۔‘‘

ڈپریشن کے علاج میں اینٹی ڈپریسنٹ مؤثر نہیں

اس تازہ مطالعاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پروزیک طرز کی ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات جو دماغ میں سیروٹونین کی سطح کم ہونے سے روکتی ہیں، ڈپریشن کے علاج کے طور پر استعمال نہیں کی جانا چاہییں۔ رپورٹ کے مطابق یہ ادویات ڈپریشن کے علاج کے لیے بالکل بھی کارآمد نہیں ہیں، خصوصاﹰ اگر کسی مریض کو درمیانے یا شدید درجے کے ڈپریشن کا مرض لاحق ہو۔ مطالعاتی رپورٹ کے محققین نے لکھا ہے کہ کیمیائی عدم توازن کا نظریہ علاج کی تکمیل کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور یوں کسی شخص کے عمر بھر ان ادویات پر انحصار کا راستہ کھل جاتا ہے۔

ڈپریشن سے نجات کے لیے کیا کیا جائے؟

دوسری جانب یو سی ایک جینیٹک انسٹیٹیوٹ برطانیہ سے وابستہ اعزازی پروفیسر ڈیوڈ کُٹریس نے اس مطالعے کے نتائج پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ شدید ڈپریشن میں مبتلا افراد کی ادویات کے استعمال کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہیے: ''یہ بہت واضح ہے کہ ڈپریشن کی بیماری دماغ کی فعالیت میں کسی نہ کسی خلل کا نتیجہ ہے، ہم فی الحال اس کے اصل محرکات سے واقف نہیں ہیں، مگر اینٹی ڈپریسنٹ شدید ڈپریشن میں مبتلا افراد کے لیے مناسب علاج ہیں۔‘‘

ڈپریشن کیوں ہوتا ہے؟

یہ نئی تحقیق یہ تو بتاتی ہے کہ سیروٹونین کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں ہے، تاہم  اس کا کوئی متبادل فراہم نہیں کرتی۔ اس تازہ رپورٹ کے مطابق ڈپریشن ایک پیچیدہ حالت ہے، جس کے محرکات کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زندگی میں برے واقعات اور ان سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات، ڈپریشن پر گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ ماہرین نے دماغی تناؤ کو بھی ڈپریشن کی ایک اہم وجہ قرار دیا ہے۔

شوالر فریڈرک (ع ت، ا ب ا)