1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈوئچے ویلے اردو سروس کے پینتالیس سال ، پاکستانی میڈیا کے ساتھ ایک تقابلی جائزہ

14 اگست 2009

ڈویچے ویلے شعبہ اردو کے قیام کو پینتالیس سال مکمل ہو گئے ہیں۔ چودہ اگست سن 1964ء کو قیام میں آنے والے اس اردو شعبے نے عالمی اور بالخصوص پاکستانی سیاسی، سماجی اور اقتصادی منظر نامے پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/J9OJ
تصویر: DW

مئی 1999ء میں کارگل کی چوٹیوں پر پاکستانی فوجیوں کے قبضے کے نتیجے میں کشمیر سیکٹر میں پاک بھارت محدود جنگ اور اس کے حوالے سے پراپیگنڈہ جنگ میں بھارت سے کہیں پیچھے رہنے کے بعد پاکستانی حکومت میں نجی ذرائع ابلاغ کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوا اور اس کے نتیجے میں جو پالیسی اختیار کی گئی اس کے بعد اس وقت کم از کم ایک سو نجی ٹی وی اور ایف ایم ریڈیو سٹیشنز خبروں سمیت سماجی اور سیاسی پروگرام پیش کرنے میں سرگرم ہیں۔

اس کے باوجود سی این این اور بی بی سی جیسے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ساتھ ڈوئچے ویلے کی نشریات پاکستان اور افغانستان ایسے ممالک میں آج بھی توجہ کا مرکز بنتی رہتی ہے لیکن سن 2000ء میں نجی ٹی وی اور ریڈیو سٹیشنوں کے لائسنسوں کے اجراء سے پہلے وائس آف امریکا اور بی بی سی کے ساتھ ساتھ ڈوئچے ویلے کی ریڈیو نشریات پاکستان اور افغانستان میں بے حد مقبول تھیں کیونکہ اس وقت سامعین اور ناظرین کو صرف ریاستی ریڈیو اور ٹی وی کی یکطرفہ نشریات میسر تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ خاص طور پر 1990ءاور سن 2000ءکے درمیانی عرصے میں بے نظیر بھٹو سے لے کر نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف اور شیخ رشید سے لے کر مولانا فضل الرحمن ایسے پاکستانی رہنماﺅں نے ڈوئچے ویلے کو بخوشی انٹرویو دیئے اور وفاقی وزارتوں کے علاوہ صوبائی حکومتوں نے بھی بی بی سی اور وائس آف امریکا کی طرح ڈوئچے ویلے کو بھی اہمیت اور احترام دیا۔

Pakistan Zeitung Ausnahmezustand Leser
پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی ترقی نے عوام کو معلومات کے متبادل ذرائع مہیا کئے ہیںتصویر: AP

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی رہنماء مظہر عباس نے پاکستانی میڈیا کے منظر نامے میں غیر ملکی نشریاتی اداروں کے کردار کی اہمیت ہی کے حوالے سے بتایا: ’’جب تک پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں تھا لوگ انہی چینلز اور ریڈیوز کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ اس ملک میں کئی ایسی تحریکیں چلی ہیں جن کے بارے میں بی بی سی ، وائس آف جرمنی یا وائس آف امریکہ پر جو خبریں آتی تھیں ان کو سن کر لوگ اس کے مطابق رائے قائم کرتے تھے اس لئے اس چیز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس میں سب سے مثبت رجحان یہ ہے کہ ان غیر ملکی نشریاتی اداروں نے عام لوگوں تک خبریں پہنچائیں اور ان خبروں پر لوگوں نے اپنی رائے قائم کی۔ بی بی سی ، ڈوئچے ویلے یا وائس آف امریکہ اس طرح کے ادارے ہیں جنہوں نے پاکستان کے لوگوں میں صحافت کے بارے میں دلچسپی پیدا کی اور نوجوان صحافت کی طرف آئے۔“

ریڈیو نشریات کے ساتھ ساتھ ڈوئچے ویلے سمیت اکثر غیر ملکی نشریاتی اداروں نے اپنی ویب سائٹس کے ذریعے معلومات اور خبروں کی فراہمی کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ بھی ریڈیو نشریات کی طرح خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور غالباً اسی اہمیت کے پیش نظر ویب سائٹس کی سرگرمی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ امتیاز گل، اسلام آباد

ادارت عاطف بلوچ