1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈنمارک نے جرمن سرحد پر فوج تعینات کر دی

شمشیر حیدر dpa/AFP
30 ستمبر 2017

فوج کی تعیناتی کے بعد جرمنی سے ڈنمارک جانے والے مسافروں کا استقبال آئندہ ہاتھوں میں بندوقیں لیے ڈنمارک کی فوج کے اہلکار کریں گے۔ یورپی یونین کی نئی تجاویز کے مطابق بارڈر کنٹرول کی مدت بڑھائی جا سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/2l10n
تصویر: picture-alliance/Scanpix Denmark/M. Dalegaard

کوپن ہیگن حکومت نے جرمنی سے متصل سرحد پر جمعہ انتیس ستمبر کی شب فوجی تعینات کر دیے۔ یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد ڈنمارک نے جرمن سرحد پر جنوری سن 2016 سے بارڈر کنٹرول متعارف کرا رکھا تھا تاہم اب یہ فوجی اہلکار ڈینش چیک پوسٹوں پر پولیس کی معاونت کریں گے۔ ڈنمارک کی سرحد پر واقع جرمن صوبے شلیسوِگ ہولسٹائن اور فلینسبرگ شہر کے مابین سرحد پر جرمن پولیس کی چوکیاں بدستور فعال ہیں۔

جلد ہی شینگن زون میں دوبارہ بلاروک ٹوک سفر کیا جا سکے گا؟

یورپی یونین کی شینگن زون میں نافذ بارڈر کنٹرول میں توسیع کی درخواست

کوپن ہیگن حکام نے فوج کی تعیناتی کے حوالے سے بتایا ہے کہ بارڈر کنٹرول بدستور پولیس کے ہاتھ میں رہے گا جب کہ فوج پس منظر میں رہتے ہوئے پولیس کو معاونت فراہم کرے گی۔ مسلح فوج کے اہلکار براہ راست جرمنی سے ڈنمارک آنے والی گاڑیوں کی تلاشی نہیں لیں گے۔ ڈینش حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج کا کام مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر دوسرے مقامات پر منتقل کرنا اور سرحدوں کی نگرانی کرنا ہو گا۔ ابتدائی طور پر فوجیوں کی تعیناتی تین ماہ کے لیے کی گئی ہے۔ جرمنی سے فیری کے ذریعے ڈنمارک جانے والے آبی راستوں پر فوج تعینات نہیں کی گئی۔

جرمنی کا احتجاج

جرمن وفاقی ریاست شلیسوِگ ہولسٹائن کے وزیر اعلیٰ ڈینیئل گُنتھر نے کوپن ہیگن میں ڈنمارک کے وزیر اعظم لارس لوکے راسموسن سے ملاقات کے دوران بارڈر کنٹرول کے حوالے سے گفتگو کی۔ گُنتھر کا کہنا تھا، ’’ہم نہیں چاہتے کہ (بارڈر کنٹرول) ایک مستقل سلسلہ بن جائے۔‘‘

کیا شینگن زون کا خواب ٹوٹ کر بکھر جائے گا؟

صوبے کے دیگر سیاست دانوں نے بھی وزیر اعلیٰ کے بیان کی تائید کی ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاست دان بیرٹے پاؤلس نے ہیمبرگ کے ایک مقامی اخبار سے کی گئی اپنی گفتگو میں کہا، ’’بارڈر کنٹرول متحدہ یورپ کے لیے سود مند نہیں اور مشتبہ افراد تو ایسی جگہوں سے بھی سرحد پار کر سکتے ہیں جہاں فوجی تعینات نہیں ہیں۔‘‘

بارڈر کنٹرول کی مدت میں توسیع

رواں ہفتے کے آغاز میں یورپی کمیشن نے تجویز پیش کی تھی کہ یونین کے رکن ممالک سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ملکی سرحدوں پر عارضی طور پر متعارف کرائے گئے بارڈ کنٹرول کی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں۔ یورپی یونین کے قیام کے بعد نقل و حرکت کی آزادی اس خطے کی اہم ترین خصوصیت تصور جاتی ہے۔

جرمنی، آسٹریا، ڈنمارک اور ناروے کی سرحدوں پر متعارف کردہ بارڈر کنٹرول کی معیاد نومبر میں ختم ہو جائے گی۔ عارضی سرحدی نگرانی زیادہ سے زیادہ دو برس تک متعارف کرائی جا سکتی ہے لیکن یورپی کمیشن کی تجویز کے مطابق نومبر میں دو برس پورے ہو جانے کے بعد بھی سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بارڈر کنٹرول مزید ایک سال کے لیے بڑھایا جا سکتا ہے۔

Denmark introduces controls at German border

کوپن ہیگن میں فوجی دستے تعینات

ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں یہودی عبادت گاہ اور اسرائیلی سفارت خانے کی حفاظت کے لیے بھی فوجی تعینات کر دیے گئے ہیں۔ فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل اسٹین ڈالسگارڈ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ کوپن ہیگن میں فوجیوں کی تعیناتی مارچ سن 2018 تک کے لیے کی گئی ہے۔ ترجمان کے مطابق یہ فوجی انتہائی ماہر اور جدید تربیت یافتہ ہیں۔

سن 2015 کے بعد ڈنمارک کے دارالحکومت میں یہودی عبادت خانے اور سفارت خانے پر دو پرتشدد حملے کیے جا چکے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ کوپن ہیگن میں فوجیوں کی تعیناتی کی گئی ہے۔

یورپی یونین بارڈر کنٹرول کے خلاف

ڈنمارک جرمن سرحد پر شناختی دستاویزات کی جانچ جاری رکھے گا