1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈبلن معاہدے سے یونان و اٹلی کے لیے مشکلات کیوں بڑھ رہی ہیں؟

27 اگست 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ڈبلن معاہدے میں مہاجرین سے متعلق شق پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایک تازہ انٹرویو میں میرکل نے کہا کہ ڈبلن انتظامی معاہدے کی موجودہ شکل پر عمل درآمد سے اٹلی اور یونان پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2iurZ
Deutschland Bundeskanzlerin Angela Merkel, Wahlkampfauftritt in Quedlinburg
تصویر: Reuters/R. Krause

میرکل نے اخبار بلڈ ام زونٹاگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’یہ نہیں ہونا چاہیے کہ صرف یونان اور اٹلی ہی مہاجرین کا تمام بوجھ برداشت کریں، اپنے جغرافیائی محل وقوع  کی وجہ سے پناہ گزین انہی ملکوں میں پہنچتے ہیں۔‘‘ میرکل نے مزید کہا کہ پناہ گزینوں کو منصفانہ طور پر یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ اپنے اس انٹرویو میں میرکل نے 2015ء میں برلن حکومت کی مہاجرین سے متعلق برلن حکومت کی متنازعہ پالیسی کا دفاع بھی کیا۔

عوام کا اعتماد دوبارہ جیتا جائے گا، میرکل

انگیلا میرکل کی سیاست کے پانچ اہم ادوار

مہاجرین کا بحران: جرمن چانسلر ’ہم ہوں گے کامیاب‘ کے مؤقف پر قائم

ڈبلن دستاویز کے تحت کسی بھی پناہ گزین کو یورپی یونین کے اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانی ہو گی، جس سر زمین پر اس نے پہلی مرتبہ قدم رکھا ہے۔

سیاسی پناہ کی درخواست گزاروں کی جانب سے اپنے آبائی ممالک میں چھٹیاں گزارنے کی خبروں پر میرکل نے کہا کہ یہ قابل قبول نہیں کہ جس ملک میں کسی انسان کا پیچھا کیا جا رہا ہو یا اس کی جان کو خطرہ ہو، وہ اسی ملک میں چھٹیاں منائے۔

 

بحیرہ روم کے راستے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر میرکل نے کہا کہ لیبیا کے ساحلوں کے نگران ادارے کو تمام ضروری آلات مہیا کیے جائیں گے تاکہ وہ اپنے ساحلوں کی خود حفاظت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ میرکل کے بقول اس سلسلے میں لیبیا کے ساحلی محافظین کو پناہ گزینوں، مہاجرین اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق برتاؤ کرنا ہو گا۔

اس موقع پر میرکل نے مزید کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ لیبیا کے کوسٹ گارڈز پر عائد کیے جانے والے ان الزامات کی شفاف انداز میں چھان بین کی جائے ، جن کے مطابق یہ لوگ بحیرہ روم میں مہاجرین کو ڈوبنے سے بچانے یا دیگر امدادی سرگرمیوں میں لیبیائی کوسٹ گارڈز روڑے اٹکاتے ہیں۔

مہاجرین کا بحران: کیا بدلہ اور کیا نہیں؟