1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈارون کے جمع کردہ نایاب فوسلز اچانک دریافت

17 جنوری 2012

برطانوی سائنسدان نظریہ ارتقاء کے بانی چارلس ڈارون اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے جمع کیے گئے ان متعدد فوسلز کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جو ڈیڑھ سو سال سے بھی زائد عرصے سے لاپتہ تھے۔

https://p.dw.com/p/13kpm
تصویر: Max-Planck-Institut/Pavel Tomancak

لندن کی رائل ہولو وے یونیورسٹی سے منسلک قدیم حیاتیات کے ماہر ڈاکٹر ہارورڈ فالکن لینگ نے امریکی خبر ایجنسی اے پی کو بتایا کہ یہ فوسلز یا ماضی کے کسی دور کے پودوں اور جانوروں کے ڈھانچے یا بقیہ آثار اتفاقیہ طور پر ملے ہیں۔ برٹش جیالوجیکل سروے سے ملنے والے ان فوسلز کے بارے میں ڈاکٹر فالکن لینگ کہتے ہیں کہ ایک لکڑی کی الماری میں رکھے ہوئے شیشے کے چھوٹے سے مرتبان پر انہوں نے ایک لیبل دیکھا۔ جب انہوں نے اس پر غور کیا تو انہیں احساس ہوا کہ اس لیبل پر ڈارون کے دستخط ثبت تھے۔

ڈاکٹر فالکن لینگ کہتے ہیں، ’مجھے خود کو یہ یقین دلانے میں کچھ وقت لگا کہ اس مرتبان کے لیبل پر ڈارون کے دستخط موجود ہیں‘۔ انہوں نے اپنی کیفیت بتاتے ہوئے کہا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ ڈارون کے ہی لاپتہ فوسلز والا ایک مرتبان ہے، تو وہ خوشی سے ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو گئے، ’اوہ میرے خدایا، یہ میں نے کیا دریافت کر لیا۔ اتنے طویل عرصے تک یہ نظروں سے کیونکر اوجھل رہا‘۔

BdT Gedenkbriefmarken zum 200. Geburtstag von Charles Darwin der British Post
برطانوی سائنسدان چارلس ڈارون نظریہ ارتقاء کے بانی ہیںتصویر: picture-alliance / dpa

ڈاکٹر فالکن لینگ نے شیسے کے تین سو چودہ چھوٹے اور بڑے ایسے مرتبان دریافت کیے، جن میں موجود فوسلز ڈارون اور ان کے قریبی ساتھیوں نے اکٹھے کیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک سو پینسٹھ برسوں سے یہ فوسلز لاپتہ تھے۔ ان میں وہ فوسلز بھی شامل ہیں، جو ڈارون نے مطالعاتی بحری جہاز بیگل کی مہم کے دوران جمع کیے تھے۔ 1831ء میں ڈارون بائیس برس کی عمر میں اس مہم پر نکلے تھے، جو ان کی زندگی بدل دینے میں انتہائی اہم ثابت ہوئی تھی۔ اس طویل مہم کے بعد ڈارون باقاعدہ طور پر نظریہ ارتقاء کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

ڈاکٹر فالکن لینگ کے بقول اس تاریخی دریافت کے بعد موجودہ سائنسدانوں کو اس حوالے سے اپنی تحقیق آگے بڑھانے میں بہت زیادہ مدد ملے گی، ’ڈارون کی طرف سے جمع کیے گئے نمونوں کا یہ خزانہ غیر معمولی ہے۔ اس میں کئی ایسے اہم فوسلز بھی شامل ہیں، جن کی ہم توقع بھی نہیں کر رہے تھے‘۔

ڈاکٹر فالکن لینگ نے مزید کہا کہ اتنے طویل عرصے تک یہ نایاب نمونے کس طرح نظروں سے اوجھل رہے، یہ عجیب سے بات معلوم ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ 1846ء تک ڈارون اتنے زیادہ مشہور نہیں ہوئے تھے، اس لیے شاید اس دور سے قبل انہوں نے جو نمونے یا فوسلز جمع کیے تھے، انہیں کوئی زیادہ وقعت نہیں دی گئی تھی۔ رائل ہولووے یونیورسٹی کے مطابق فوسلز کے ان مرتبانوں کو مناسب طریقے سے رجسٹربھی نہیں کیا گیا تھا۔

BdT Gedenkbriefmarken zum 200. Geburtstag von Charles Darwin der British Post
ان قدیم لیکن نایاب حیاتیاتی نمونوں کی دریافت گزشتہ برس اپریل میں ممکن ہوئی تھیتصویر: picture-alliance / dpa

ان قدیم لیکن نایاب حیاتیاتی نمونوں کی دریافت گزشتہ برس اپریل میں ممکن ہوئی تھی تاہم ان کی جانچ پڑتال کے عمل کے بعد انہیں رواں برس جنوری میں آن لائن میوزیم میں رکھا گیا۔ قدیم حیاتیات کے ماہر ین کے بقول ڈارون کی طرف سے جمع کیے گئے ان نمونوں کی مدد سے جدید سائنس میں تحقیق کی نئی راہیں کھلیں گی۔ برٹش جیالوجیکل سروے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جان لوڈن نے بھی ان نمونوں کی دریافت کو ایک ’غیر معمولی ڈسکوری‘ قرار دیا ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں