1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چینیوں کی ضروت نہیں‘ ایک جرمن ریستوران

15 مئی 2020

جرمنی میں لاک ڈاؤن کے بعد بعض کیفے اور ریستورانوں کو کاروبار کرنے کی اجازت حاصل ہو گئی ہے۔ جرمنی کے مشہور شہر ڈسلڈورف کے ایک ریسٹورنٹ کے شیف نے ایک اعلان کر کے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3cG8Q
Deutschland 40 Jahre Restaurant Im Schiffchen
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser

جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے صوبائی دارالحکومت ڈسلڈورف میں بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد قدرے چھوٹے اور درمیانے حجم کے کیفے اور ریستورانوں نے اپنے دروازے گاہکوں کے لیے کھول دیے ہیں۔ اسی شہر میں سے گزرتے دریائے رائن کے کنارے کے قریب ایک ریسٹورنٹ 'اِم شِیفن‘ واقع ہے۔ اس کیفے کو بھی صوبائی حکومت نے کورونا وائرس کی وبا کے سبب لاگو لاک ڈاؤں میں نرمی کے فیصلے کے بعد کھولنے کی اجازت دی ہے۔

اِم شِیفن کیفے کے فرانسیسی شیف (کُک یا باورچی) کا نام ژاں کلود بورگیل ہے۔ ان کے فیس بک پر ڈالی گئی ایک پوسٹ نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ 73 سالہ ژاں کلود بورگیل نے فیس بک پر لکھا، ''ہم جمعے سے کام شروع کر رہے ہیں، صرف بِسترو کھلے گا، کوئی چینی گاہک نہیں چاہیے‘‘۔

کیفے کے شیف کے فیس بک پر شائع اعلان کا اسکرین شاٹ فوری طور پر سماجی رابطے پر ایک تنازعے کا روپ دھار گیا۔ کئی صارفین نے اِم شِیفن کے کُک کے بیان پر اپنی شدید برہمی اور ناراضی کا اظہار کیا۔

اگر ہم جرمنی میں بھی محفوظ نہیں تو کہاں ہوں گے؟

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر لوگوں نے سخت کلمات کا استعمال بھی کیا۔ ایک صارف نے لکھا، ''اِم شِیفن کو اس اعلان پر شرمندہ ہونا چاہیے‘‘۔ ایک اور پوسٹ میں ایک دوسرے صارف نے تحریر کیا، ''ژاں کلود بورگیل کا یہ بیان یقینی طور پر بیمار ذہنیت کا عکاس ہے، وہ نکھٹو اور جھوٹا ہے‘‘۔ 24 گھنٹوں میں شیف کی پوسٹ پر پانچ سو سے زائد کمنٹس سامنے آئے۔

ژاں کلود بورگیل نے صارفین کے ردعمل کے بعد سوشل میڈیا کی صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش ضرور کی اور اپنے پیج پر اپنے بیان کو بغیر کسی سوچ کا حامل قرار دیا۔ انہوں نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ وہ اپنا جملہ صحیح انداز میں تحریر کرنے سے قاصر رہے تھے۔ ژاں کلود بورگیل نے یہ بھی کہا کہ ان کے بیان سے مراد چینی شہری نہیں ہیں بلکہ ملک چین کا ڈکٹیٹر ہے۔ بورگیل کے مطابق وہ انقلاب فرانس کی پیدائش ہیں اور دنیا کے سبھی آمروں سے نفرت کرتے ہیں۔

حالیہ ایام میں یہ دیکھا گیا ہے مختلف جرمن شہروں میں مشرقِ بعید کے ممالک کے شہریوں (انہیں یورپ اور امریکا میں ایشیئن کہا جاتا ہے) کو چینی شہر ووہان میں جنم لینے والی کورونا وائرس کی مہلک وبا کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ڈسلڈورف جرمنی کا چھٹا ایسا بڑا شہر ہے جہاں کثیر تعداد میں ایشیئن آبادی بستی ہے۔

ع ح/ا ب ا (ڈیوس فان اوپ ڈورپ)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید