1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی مزدوروں میں خودکشی کا بڑھتا رجحان

27 مئی 2010

چين ميں محنت کشوں کےحالات کار بہت سخت ہيں: لمبے اوقات کار،سماجی تحفظ کے خراب انتظام،اوراکثر بہت کم اجرتوں نے ملازمين کی زندگی اجيرن کررکھی ہے۔ چينی مزدوروں ميں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/NYoI
تصویر: picture-alliance / dpa

چين ميں محنت کشوں کےحالات کار بہت سخت ہيں: لمبے اوقات کار،سماجی تحفظ کے خراب انتظام اوراکثر بہت کم اجرتوں نے ملازمين کی زندگی اجيرن کررکھی ہے۔ مغربی ملکوں ميں سستی اشياء خريدنے کی ذہنيت بڑھتی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ہی چينی فرموں پر قيمتوں ميں کمی کرنے کے لئے دباؤ ميں اضافہ ہورہا ہے۔ نتيجہ يہ ہے کہ چينی مزدوروں ميں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

BdT Grubenunglück in China
سخت مشقت نے مزدوروں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہےتصویر: AP

چين کی مشہوراليکٹرانکس فرم Foxconn اس شعبےميں دنيا کی سب سےبڑی فرم ہے۔ اُس کا کارخانہ ايک قلعے کی مانند نظرآتا ہے: اونچی اونچی ديواريں اورپہرے پرتعينات سيکيورٹی کا عملہ اسے بيرونی دنيا سے کٹا ہوا رکھتا ہے۔

اس فرم کے کئی نوجوان مزدوروں کی يکے بعد ديگرے خودکشی کی وجہ سے فرم کے مالک ٹيری جُو ذاتی طور پر تائيوان سے جنوبی چين آئے۔ ٹيری جُو نے ايک پريس کانفرنس ميں کہا کہ وہ رائےعامہ،اُن کے تمام ملازمين اور متاثرين کے گھرانوں سےمعافی مانگتےہيں ۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن سے غلطياں ہوئی ہيں اوراپنے ساتھ برے برتاؤ کے احساس کی وجہ سے نفسياتی مسائل کا شکار ہونے والے ملازمين کی مدد نہيں کی گئی۔

China Textilarbeiterinnen
چین میں مزدوروں کو سخت مشقت اور کم اجرتوں کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

فوکس کون فرم کے مالک نے اپنے ملازمين کی خودکشيوں کی روک تھام کے لئےسب کچھ کرنے کا وعدہ کيا۔ ايک نوجوان مزدور نے ايک ٹيلی وژن انٹرويو ميں کہا: " فرم کے سپروائزربہت ترش روہيں۔ وہ ہميشہ ہميں ڈانتے اور ہم پر چيختے چلاتے رہتے ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگر ہم اُن کی بات نہيں مانيں تو ہم جا سکتے ہيں۔ ايک سپروائزر نے مجھ سے کہا کہ ميرے پاس سخت محنت کے سوا کوئی اور راستہ نہيں ہے: فوکس کون کے پاس کافی پيسہ اور کارکن ہيں۔ اُن ميں سے ايک کے کم ہوجانے سے فرم کو کوئی فرق نہيں پڑے گا۔"

جب خودکشی کا اسکينڈل اور بڑھنے لگا تو فرم کی انتظاميہ نے مزدوروں کو ايک خط لکھا کہ وہ خودکشی نہ کرنے کا عہد کريں۔ ليکن جب فوکس کون کے مالک ٹيری جو کو يہ علم ہوا تو وہ بہت غصہ ہوئے اور اُنہوں نے اس خط کو واپس لے ليا۔

Adidas Schuhproduktion in China
ایک چینی جوتا ساز کارخانے کا منظرتصویر: picture-alliance/dpa

فوکس کون، ايپل، نوکيا اور ڈيل جيسی بہت بڑی فرموں کے لئے اليکٹرانکس تيار کرتی ہے۔ ايپل نےاعلان کيا کہ اس کی چھان بين کی جائے گی کہ کيا فوکس کون اپنے ملازمين کی بہبود کا صحيح خيال رکھتی ہے۔ چين ميں قوانين محنت کے عالمی شہرت يافتہ ماہر کائ منگ کا کہنا ہے کہ فوکس کون کے گاہک اس مسئلے کے براہ راست ذمے دار ہيں۔ اُنہيں چاہئے کہ وہ حالات کاراورانتظاميہ کے کلچر کو تبديل کرنے ميں فوکس کون کی مدد کريں۔

اُنہوں نے کہا: " اس کارخانے ميں 40 ہزار مزدور صرف چار مربع کلو ميٹر کے رقبے پر رہتے ہيں اور ہر قسم کے سماجی تانے بانے سے محروم ہيں۔90فيصد مزدور اپنے گھرانوں سے جدا يہاں تنہا رہتے ہيں۔اُنہيں سخت محنت کے باوجود بہت کم اجرت ملتی ہے اور يہ ايک مہنگا شہر ہے۔ "

خودکشی کرنے والے تمام مزدوروں کی عمريں 18 اور 25 سال کے درميان ہيں۔ فوکس کون کے کمپاؤنڈ ميں ہزاروں پوليس والوں کے پہرے کے باوجود خود کشيوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 26 مئی کو فرم کے مالک کی پريیس کانفرنس کے چند گھنٹے بعد ہی ايک 23 سالہ مزدور نے ساتويں منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی۔

کائ منگ کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو صرف کھانے پينےاور محنت کرنے کی مشينوں ميں تبديل کرنے کے بجائے اُنہیں حقوق دينا ہوں گے۔ اس کے لئے محنت کشوں کو ٹريڈ يونين کی شکل ميں منظم ہونا پڑے گا۔

رپورٹ : آسٹرڈ فرائی آئزن، شنگھائی / شہاب احمد صدیقی

ادارت : سائرہ حسن