1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کے خلاف امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کا دفاعی معاہدہ

16 ستمبر 2021

امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے ایک خصوصی سکیورٹی معاہدے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مقصد چین کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت پر لگام  لگانے کے لیے جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی کی تیاری میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/40Nrg
USA I Washington I Präsident Joe Biden
تصویر: Andrew Harnik/abaca/picture alliance

امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے رہنماؤں نے بدھ کے روز ایک نئے 'انڈو پیسفک ڈیفنس پارٹنرشپ‘ معاہدے کا اعلان کیا۔ اس سہ فریقی دفاعی اتحاد کے تحت امریکا اور برطانیہ کی جانب سے آسٹریلیا کو جوہری طاقت سے لیس جدید ترین آبدوز ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکا اور مغربی ملکوں کے چین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔

اس دفاعی معاہدے کو آوکس (Aukus) کا نام دیاگیا ہے۔ اس کے تحت تینوں ممالک اپنی دفاعی صلاحیتوں بشمول سائبر سکیورٹی، مصنوعی ذہانت اور زیر آب نظام کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا تبادلہ کریں گے۔ تینوں ممالک ہند بحرالکاہل میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور فوجی موجودگی سے فکر مند ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک ورچوئل میٹنگ کے دوران کہا، ”آج ہم نے تینوں ملکوں کے درمیان باہمی تعاون کو مزید مستحکم کرنے اور اسے ایک رسمی شکل دینے کے لیے ایک اور تاریخی قدم اٹھایا ہے۔ کیونکہ ہم تینوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہند بحرالکاہل میں طویل مدتی امن اور استحکام کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔"

آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن
آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسنتصویر: Morgan Sette/AAP Image/AP/picture alliance

آسٹریلیا کی جوہری طاقت میں اضافہ

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ تینوں اتحادی، پہلے سے ہی خفیہ معلومات ایک دوسرے سے شریک کرنے والے پانچ ملکی اتحاد 'فائیو آئیز‘ کے رکن ہیں، جس میں کینیڈا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نیامعاہدہ ”ہماری دوستی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے اور اس شراکت داری کا پہلا  کام آسٹریلیا کے لیے جوہری طاقت سے لیس آبدوزوں کے حصول میں مدد کرنا ہے۔"

اس معاہدے کے بعد آسٹریلیا پہلی مرتبہ جوہری طاقت سے لیس آبدوز تیار کرسکے گا۔ وہ برطانیہ کے بعد دوسرا ملک بن جائے گا جو اپنے جہازوں میں امریکی نیوکلیائی پروپلسن ٹیکنالوجی استعمال کرسکے گا۔

جانسن نے تاہم واضح کیا، ”یہ جہاز نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس نہیں ہوں گے بلکہ یہ نیوکلیائی ری ایکٹروں سے آراستہ ہوں گے اور ہم جوہری ہتھیاروں کے عدم توسیع کے اپنے وعدوں پر پوری طرح قائم رہیں گے۔"

آسٹریلیا نے اسی کے ساتھ فرانسیسی ڈیزائن والے آبدوز  تیار کرنے کے معاہدے کو منسوخ کردیا۔ سن 2016 میں فرانس نے آسٹریلوی بحریہ کے لیے 12 آبدوز تیار کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔  50 ارب آسٹریلوی ڈالر کا یہ معاہدہ آسٹریلیا کا اب تک کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ تھا۔

چین جدید قسم کے ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتا ہے، امریکا

آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے بتایا کہ امریکا اور برطانیہ کے قریبی تعاون سے یہ آبدوز ایڈیلیڈ میں تیار کیے جائیں گے۔ انہوں نے ٹام ہاک کروز میزائلوں سمیت طویل دوری تک مار کرنے والے میزائلوں کو اپ گریڈ کرنے کا بھی اعلان کیا۔

تینوں ملکوں کے اس نئے معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسینڈا آرڈرن نے اپنے ملک کی آبی حدود میں جوہری طاقت والے جہازوں کے داخلے پر پابندی کا اعادہ کیا۔

خیال رہے کہ امریکا 'کواڈ‘ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ گروپ کا بھی حصہ ہے جس میں آسٹریلیا، بھارت اور جاپان شامل ہیں۔ ان چاروں ملکوں کے رہنما اگلے ہفتے واشنگٹن میں براہ راست ملاقات کرنے والے ہیں۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسنتصویر: Alberto Pezzali/AP Photo/picture alliance

امریکا چین تعلقات میں کشیدگی

اس نئے معاہدے کے بعد خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے عزائم کے حوالے سے امریکا نے محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم موریسن نے کہا، ”دیگر امور پر بات چیت کے لیے صد رشی جن پنگ کو کھلی دعوت ہے۔"

واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے نئے اتحاد کے اعلان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان ملکوں کو”سرد جنگ کی ذہنیت اور نظریاتی تعصب سے باہرنکلنا چاہیے۔"

وائٹ ہاؤس ماضی میں سنکیانگ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، ہانگ کانگ میں مخالفین کے خلاف کارروائیوں اور کورونا وائرس سے نمٹنے کے اس کے طریقہ جیسے متعدد امور پر بیجنگ کی نکتہ چینی کرتا رہا ہے اور بعض اوقات اس پر پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔

امریکہ بھارت معاہدہ: دفاعی ماہرین کا اظہار تشویش

بائیڈن نے کہا تھاکہ وہ کورونا وائرس کی وبا اور ماحولیاتی مسائل جیسے اہم امور پر چین کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف امریکا کے اتحادیوں میں بین الاقوامی امور میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے فکر مند ی بھی بڑھ رہی ہے۔

ج ا/ع آ(اے پی، ڈی پی اے)