1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کے ایغور مسلمانوں کے لیے سنکیانگ اب ایک ’اوپن ایئر جیل‘

مقبول ملک اے ایف پی
13 جولائی 2017

چین کے انتہائی مغربی شہر کاشغر میں مقامی مسلمان الیکٹرانک حفاظتی دروازوں سے گزر کر جب نماز کے لیے مرکزی مسجد میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں، تو ڈیوٹی پر موجود بےتاثر چہروں والے پولیس افسران ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2gRam
سنکیانگ کے شہر کاشغر کی ایک مسجد سے جمعے کی نماز پڑھ کر باہر نکلتے ہوئے ایغور مسلمانتصویر: picture-alliance/dpa/H. W. Young

ان چینی مسلم نمازیوں کے لیے عبادت کی خاطر کاشغر کی مرکزی جامعہ مسجد جاتے ہوئے خاموشی سے میٹل ڈیٹیکٹر دروازوں سے اس طرح گزرنا اب معمول کی بات بن چکی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ چین کے انتہائی مغرب میں واقع، زیادہ تر مسلم آبادی والے اور کشیدگی کے شکار صوبے سنکیانگ میں حکام نے بہت سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

China Uiguren
کاشغر کی رہنے والی ایک ایغور مسلم شہریتصویر: P. Parks/AFP/Getty Images

اس بارے میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے جمعرات تیرہ جولائی کے روز کاشغر سے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ سنکیانگ چین کا ایسا صوبہ ہے، جس کی سرحدیں ہمسایہ ملک پاکستان سے ملتی ہیں اور جہاں داڑھی رکھنے پر نہ صرف جزوی پابندی عائد ہے بلکہ کسی کو بھی کسی عوامی جگہ پر عبادت کی اجازت نہیں ہے۔

کاشغر کی اس جامعہ مسجد کے باہر چوک میں برسوں تک ایسا ہوتا رہا کہ ہر سال رمضان کے مہینے کے اختتام پر جب یہ مسجد نمازیوں سے پوری طرح بھر جاتی تھی، تو بہت سے مسلمان عیدالفطر کی نماز ادا کرنے کے لیے اپنی اپنی جائے نماز ساتھ لاتے تھے اور اس چوک میں نمازیوں کی صفوں کی صفیں دیکھنے میں آتی تھیں۔ اب وہاں ایسا نہیں ہوتا۔ اس سال جب عیدالفطر کے دن ایغور مسلمان نماز کے لیے اس مسجد میں جمع ہوئے تو مقامی باشندوں کے مطابق ان کی تعداد گزشتہ کئی نسلوں کے دوران اس مسجد میں عید کی نماز کے لیے موجود مسلمانوں کی کم ترین تعداد تھی۔

چینی صوبے سنکیانگ میں برقعے اور داڑھی پر پابندی کا فیصلہ

استنبول حملہ، چینی ایغور جہادی کیوں بن رہے ہیں؟

ایغور انتہاپسندوں کی بڑھتی جہادی سرگرمیاں اور چینی سفارتکاری

حکام نے سرکاری طور پر تو یہ نہیں بتایا کہ تب اس مسجد میں جمع مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی لیکن مقامی کاروباری شخصیات نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکومت نے کاشغر کے پورے شہر کے ارد گرد ایسی کئی چیک پوسٹیں قائم کر رکھی تھیں، جن کا مقصد مسافر مسلمانوں کو نماز عید کے لیے کاشغر میں داخلے سے روکنا تھا۔

China Soldaten in der Xinjiang Provinz
چینی حکومت نے سنکیانگ میں ہزارہا اضافی سکیورٹی دستے تعینات کر رکھے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo

ایسے ہی ایک چینی ایغور مسلم تاجر نے بتایا، ’’اب یہ جگہ مذہب کے لیے اچھی نہیں رہی۔‘‘ بیجنگ میں ملکی حکومت کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں لگائی جانے والی پابندیاں اور جگہ جگہ پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی کا مقصد علیحدگی پسندانہ تحریکوں اور مسلم انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ لیکن کئی تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ چین کا اکثریتی طور پر مسلم آبادی والا صوبہ سنکیانگ اب ایک ’اوپن ایئر جیل‘ میں بدل چکا ہے۔

آسٹریلیا کی لا ٹروب یونیورسٹی کے چینی سکیورٹی امور کے ماہر جیمز لائیبولڈ کہتے ہیں، ’’چینی حکومت وہاں یقینی طور پر ایک ایسی پولیس اسٹیٹ قائم کرتی جا رہی ہے، جس کی کوئی ایک بھی مثال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔‘‘

چینی حکومت نے سنکیانگ میں سکیورٹی دستوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافے کے ساتھ ساتھ وہاں مذہبی پابندیاں عائد کر دینے کا سلسلہ 2009ء میں شروع کیا تھا۔ تب اس صوبے کے دارالحکومت ارومچی میں حملوں اور فسادات کا ایک ایسا سلسلہ دیکھنے میں آیا تھا، جس میں قریب 200 افراد مارے گئے تھے۔

China Xinjiang Uiguren
کاشغر میں ایک ایغور مسلم بچی اور پس منظر میں چینی پولیس اہلکارتصویر: Reuters/T. Peter

اس سال مارچ میں چینی صدر شی جن پنگ نے ملکی سکیورٹی فورسز کو یہ حکم بھی دے دیا تھا کہ وہ اس علاقے کے ارد گرد ’ایک عظیم فولادی دیوار‘ کھڑی کر دیں۔ چینی صدر نے یہ حکم اس وقت دیا تھا جب ایسے ایغور مسلمانوں نے، جو خود کو شام اور عراق میں موجود دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے ایک ذیلی حصے کے ارکان قرار دیتے تھے، یہ دھمکی دے دی تھی کہ وہ واپس لوٹ کر ’خون کے دریا‘ بہا دیں گے۔

چینی مسلمانوں کو ڈی این اے نمونے کی شرط پر سفری دستاویزات کا اجرا

چینی صوبے سنکیانگ میں روزہ رکھنے پر ’پابندی‘

’پاکستان سے ایغور عسکریت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا ہے‘

سنکیانگ میں گزشتہ ایک سال کے دوران چینی حکومت ہزارہا اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کر چکی ہے، شہر کے تقریباﹰ ہر کونے میں نئے پولیس اسٹیشن قائم کیے جا چکے ہیں اور ایسے کئی نئے لیکن بہت سخت ضوابط بھی متعارف کرائے جا چکے ہیں، جن کا مقصد ’شدت پسندی کا خاتمہ‘ ہے۔

Sicherheitskräfte in Ürümqi China Xinjiang
تصویر: picture-alliance/ dpa

اب سنکیانگ میں جگہ جگہ لگے پبلک سائن بورڈ خبردار کرتے ہیں کہ کسی کو بھی کسی عوامی جگہ پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی شہری 50 برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل داڑھی نہیں رکھ سکتا اور مسلمان سرکاری ملازمین کے لیے رمضان میں روزہ رکھنا بھی قانوناﹰ منع ہے۔

پاکستان کے ساتھ سرحد کے قریب ’تاشکرگان‘ میں تو حکام نے حلال خوراک بیچنے والے ایک ریستوران کو ’سزا کے طور پر‘ بند کر دیا، جس کے مالک نے، ایک قریبی دکاندار کے بیانات کے مطابق، چھٹی کے دن گاہکوں کو کھانا پیش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

سنکیانگ کے ایک استاد اور ایک سرکاری اہکار کے بقول اسکولوں میں طلبا و طالبات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بطور مسلمان عربی زبان میں ’السلام علیکم‘ یا ’وعلیکم السلام‘ بھی نہ کہیں۔ اس اہلکار نے بتایا، ’’حکومت کے خیال میں السلام علیکم کے یہ اسلامی الفاظ بھی علیحدگی پسندی کے مترادف ہیں۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق چین میں سنکیانگ کی اکثریتی ایغور مسلم آبادی اب اسی طرح کی ’پولیس اسٹیٹ‘ اور ’اوپن ایئر جیل‘ میں زندگی گزار رہی ہے۔