1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کی فوج کتنی طاقت ور ہے ؟

William Yang/ بینش جاوید
10 مئی 2018

دنیا میں چین دفاع پر خرچ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ چین تیزی سے اپنی فوج ’پیپلز لبریشن آرمی‘ کو جدید بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ چین امریکا کی دفاعی طاقت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2xUYU
Chinesische Polizeieinheit - People's Armed Police
تصویر: picture-alliance/Photoshot/P. Xinglei

2017ء میں دفاع پر 150 ارب ڈالر خرچ کرنے والے اس ایشیائی ملک نے 2015ء کے بعد پہلی مرتبہ آبنائے تائیوان میں فوجی مشق کی۔ اس کا مقصد نیم خودمختار تائیوان کے سامنے اپنی فوجی قوت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین نے اپنے فوجی ساز وسامان اور اسلحے کو جدید کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں قومی کانگریس میں شی جن پنگ نے کہا تھا کہ انہیں سن 2035 تک پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کو موجودہ دور کی مناسبت سے جدید کرنا ہوگا اور اسے سن 2050 تک دنیا کی طاقت ور ترین افواج میں شامل کرنا ہوگا۔

فوج کے مختلف شعبوں میں ترقی تو ہو رہی ہے لیکن چین نے سب سے زیادہ ترقی فضائیہ اور بری افواج میں کی ہے۔ ان دونوں شعبوں میں چین نے تکنیکی صلاحیت  اتنی بڑھا لی ہے کہ اب وہ امریکا سے پیچھے نہیں ہے۔ چین جے ٹوئٹی خفیہ جنگی طیاروں پر مبنی ایک یونٹ بنانے کی تیاری کر رہا ہے جس کے بعد وہ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی میں امریکا کی اجارہ داری کو چیلنج کر سکے گا۔ اس کے علاوہ فضا میں ہی اپنے ہدف کونشانہ بنانے والے  پی ایل 15 میزائل، 055 کروزو اور جدید ریڈاروں کے باعث چین کی کوشش ہے کہ امریکا یا اس کے اتحادی چینی سرحدوں یا ساحل کے قریب نہ آسکیں۔ رانڈ کارپوریشن کے ایک سینیئر سیاسی تجزیہ کار مائیکل چیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’چین نے کئی شعبوں میں متاثر کن ترقی کی ہے جس کی بدولت وہ اپنے دشمنوں کو دور رکھنے اور مستقبل میں جنگیں جیتنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔‘‘

اپنی فوج کو جدید بنانے اور عسکری صلاحیتوں کو بڑھانے کے باوجود چین اب بھی مشترکہ جنگی آپریشنز کا تجربہ اور تربیت نہیں رکھتا۔  ان مسائل کے حل کے لیے چینی صدر نے بدعنوانی کے خلاف ایک اہم مہم کا  آغاز کیا ہوا ہے اور پی ایل اے میں تنظیمی تبدیلیاں بھی کی جارہی ہیں۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز  میں چین کی دفاعی پالیسی اور فوجی ترقی کی ریسرچر میائی نووینز کے مطابق، ’’شی جن پنگ  کی قیادت میں چین ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تیار ہے جو اس کے عسکری عزائم کی تکمیل میں ممکنہ طور پر خلل ڈال سکتے ہیں۔‘‘

ایک اور نقطے پر روشنی ڈالتے ہوئے نووینز کا کہنا ہے کہ چین نے ان ممالک میں اپنی سرمایہ کاری کافی بڑھا لی ہے جو غیر مستحکم ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی سرمایہ کاری اور چینی شہریوں کے تحفظ کی خاطر  چین یہ سمجھتا ہے کہ اسے اپنی فوجی طاقت کو دنیا بھر کو دکھانا ہوگا۔ نووینز کا کہنا ہے،’’ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے، بیجنگ محسوس کرتا ہے کہ اسے اب اپنی عسکری صلاحیتوں کو سرحد سے پار وسیع پیمانے پر دکھانا ہوگا۔‘‘

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ماہرین کی رائے میں چین اب فوجی ساز وسامان اور اسلحے کو دوسرے ممالک کو بھی برآمد کرنا چاہتا ہے لہذا مستقبل میں مغربی دفاعی پالیسی سازوں کو ایک  پیچیدہ ماحول کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

نووینز  کی رائے میں چین اب  امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے براہ راست اور بالواسطہ چینلجز پیدا کر رہا ہے۔ نووینز کا کہنا ہے،’’عسکری محاذ پر چین اور واشنگٹن کے درمیان حقیقی معنوں میں عمل اور ردعمل دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘ بحیرہء ہند، مشرق وسطیٰ اور افریقہ چین کی فہرست میں اوّلین درجے پر ہیں  لیکن ان کے علاوہ بھی چین نے بحیرہ روم اور بالٹک میں بحریہ کے جہاز تعینات کیے ہوئے ہیں۔ نووینز  کے مطابق،’’ یہ عسکری تعیناتیاں چین کے عزائم اور خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔‘‘