1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کا چاند تک ’لانگ مارچ‘: ایک خواب ٹوٹا ہے، حوصلہ نہیں

2 اپریل 2018

بیجنگ حکومت کا کہنا ہے کہ ایک غیر فعال چینی خلائی تجربہ گاہ کی زمین کی فضا میں حادثاتی واپسی اور تباہی چین کے خلائی پروگرام یا چاند تک اپنے انسانی مشن بھیجنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی۔

https://p.dw.com/p/2vN2Y
’تیان گونگ ایک‘ کی زمین کی فضا میں واپسی کے بعد تباہی کے نتیجے میں اس کے کئی ٹکڑے بحرالکاہل میں گرےتصویر: picture alliance/AP Photo/Fraunhofer Institute

چینی دارالحکومت بیجنگ سے پیر دو اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق چین کی طرف سے ستمبر 2011ء میں خلا میں بھیجے جانے کے بعد ’تیان گونگ ایک‘ نامی جس خلائی تجربہ گاہ کا استعمال ترک دیا گیا تھا، وہ آج پیر کے روز خلا سے حادثاتی طور پر واپس زمین کی فضا میں داخل ہونے کے بعد تباہ تو ہو گئی لیکن یہ نقصان عوامی جمہوریہ چین کے چاند تک ’لانگ مارچ‘ کے منصوبوں کو متاثر نہیں کر سکے گا۔

بھارت کا خلا میں بھیجے گئے مصنوعی سیارے سے رابطہ منقطع

غیر زمینی مخلوق کی تلاش کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ

چینی خلائی ماہرین نے زمین کے چاند تک سچ مچ کے ’لانگ مارچ‘ کا کوئی پروگرام تو نہیں بنایا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے لیکن علامتی طور پر یہ بات اس لیے کہی جاتی ہے کہ جدید چین کی بنیاد رکھتے ہوئے اس کے بانی ماؤ زےتنگ نے ایک لانگ مارچ کیا تھا اور اب ’لانگ مارچ‘ کی یہی اصطلاح اس ایشیائی ملک میں ریاستی مقاصد کے حصول کی انتھک کوششوں کا استعارہ بن چکی ہے۔

China Tiangong 1
چینی خلائی تجربہ گاہ ’تیان گونگ ایک‘ کی خلا سے لی گئی ایک تصویرتصویر: picture-alliance/dpa/CMSE/Europa Press

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ’تیان گونگ ایک‘ ایک ایسا خلائی ماڈیول تھا، جسے بیجنگ حکومت خلا میں اپنا انسانی عملے والا ایک اسٹیشن قائم کرنے کے پہلے مرحلے کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اب اس اسپیس لیبارٹری کی تباہی اس امر کا ثبوت بن گئی ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک اور دوسری سب سے بڑی معیشت کو، جو مستقبل میں خود کو ہر حوالے سے ایک سپر پاور کے طور پر دیکھنے کی خواہش مند ہے، اس کے خلائی پروگرام کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا تو ہے لیکن چین کا یہ موقف بھی بہت واضح ہے کہ خلائی تسخیر کے شعبے میں مسلمہ عالمی طاقتوں کا ہم پلہ بننے کی جدوجہد میں اس کا محض ایک خواب ٹوٹا ہے لیکن حوصلہ نہیں۔

مریخ کی جانب انسانی سفر کی تیاری

جُوپیٹر سیارے کا نیا مہمان، جُونو

چینی خلائی پروگرام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ خواہش ہمیشہ ہی سے بیجنگ کے ریاستی عزم کا حصہ رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 1957ء میں جب کالعدم سوویت یونین نے اپنا اولین ماڈیول ’اسپُٹنِک‘ خلا میں بھیجا تھا تو عوامی چین کے بانی چیئرمین ماؤ نے تبھی کہہ دیا تھا، ’’ہم بھی مصنوعی سیارے تیار کریں گے۔‘‘

طاقتور ترین خلائی راکٹ کامیاب طریقے سے روانہ

چین نے اپنا پہلا مصنوعی سیارہ 1970ء میں خلا میں بھیجا تھا اور اس کا خلابازوں کو لے کر جانے والا پہلا انسانی مشن 2003ء میں خلا میں گیا تھا۔ اب تک چینی خلائی پروگرام اس لیے بہت کامیاب رہا ہے کہ بیجنگ کو آج پیش آنے والے واقعے سے پہلے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا جبکہ امریکا اور روس تو گزشتہ عشروں کے دوران خلائی میں اپنے متعدد خلاباز اور خلائی جہاز یا تو کھو چکے ہیں یا وہ تباہ ہو گئے تھے۔

اوزون کی تہہ پر سوراخ پُر ہو رہا ہے، سائنسدان

آٹھویں سیارے کی دریافت میں ناسا نے مصنوعی ذہانت استعمال کی

چین اس وقت امریکا اور روس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کوشش میں ہے کہ وہ اپنا ایک ایسا خلائی اسٹیشن قائم کر سکے، جو زمین کے ارد گرد خلا میں گردش کرتا ہو۔ اس منصوبے کو، جسے بیجنگ اپنا ’خلائی خواب‘ قرار دیتا ہے، اس وقت سے انتہائی زیادہ ترجیج دیتے ہوئے اس پر کام کیا جا رہا ہے، جب برسوں پہلے موجودہ چینی صدر شی جن پنگ اقتدار میں آئے تھے۔

چینی خلائی پروگرام ملکی فوج کی نگرانی میں کام کرتا ہے اور خلائی ٹیکنالوجی کی چینی اکیڈمی کے سربراہ کے مطابق بیجنگ کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ چاند پر اپنا ایک ’اڈہ‘ بھی قائم کر سکے۔ چینی خلائی محققین تو مستقبل میں مریخ تک انسانی مشن بھیجنے کا ذکر بھی کر چکے ہیں۔

م م / ا ا / اے ایف پی