1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں قبروں کی صفائی اور مرمت کا تہوار

4 اپریل 2021

چین میں بہار اپنے جوبن پر ہے، ہر سو رنگ ہی رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ کورونا ویکسینیشن کا عمل بھی زور و شور سے جاری ہے یعنی یہاں ڈبل بہار آئی ہوئی ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں بھی کئی ہفتوں سے ویکسینیشن کا عمل جاری و ساری تھا۔

https://p.dw.com/p/3rZPg
China | Menschen besuchen Gräber vor dem Qingming Festival
تصویر: Zhu Zheng/Xinhua/picture alliance

ہم اپنے بلاوے کا انتظار کر رہے تھے، جو بالاخر پچھلے ہفتے آ ہی گیا۔ ہمیں ویکسین کا پہلا ٹیکہ لگوا چکے ہیں اور بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ ہمیں ویکسین لگواتے ہوئے اپنے دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہوا تھا، جس کی وجہ ویکسین بالکل نہیں تھی۔ ہم بس یہ سوچ رہے تھے کہ ہم تو چین میں مزے سے ویکسین لگوا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں موجود ہمارے والدین اس وقت تک اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ زندگی بھی انسان کو کیسے کیسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے۔

خیر، چین میں ایک تہوار منایا جا رہا ہے۔ اس تہوار کو چینی زبان میں 'چنگ منگ فیسٹول‘ جبکہ انگریزی زبان میں 'ٹومب سویپنگ فیسٹول‘ یعنی قبروں کی صفائی کا تہوار کہا جاتا ہے۔ عموماً یہ تہوار ہر سال اپریل کی چار یا پانچ  تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ یہ اس سال چار اپریل کو منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر چینی حکومت نے ہفتہ تا سوموار تین روزہ تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔ جیسے کہ نام سے ظاہر ہے، اس تہوار پر چینی لوگ قبرستان جاتے ہیں، اپنے پیاروں کی قبروں کی صفائی کرتے ہیں، قبروں پر پانی چھڑکتے ہیں اور اگر مرمت کی ضرورت ہو تو وہ بھی کر دیتے ہیں۔

DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تحریم عظیم، بلاگرتصویر: privat

پاکستان میں قبرستان جانا ایک عام معمول ہے۔ کچھ لوگ ہفتہ وار قبرستان جاتے ہیں تو کچھ مہینوں بعد چکر لگاتے ہیں۔ اکثر گھروں میں شبِ برات پر قبرستان جانا بھی ایک روایت ہے۔ کہتے ہیں قبرستان جانے سے انسان کو اپنی منزل یاد رہتی ہے۔ پاکستان اور چین میں مذہب کی وجہ سے موت اور اس سے جڑے نظریات میں ایک واضح فرق موجود ہے۔ ہمارے ہاں موت ایک اٹل حقیقت ہے، جس کے بعد ہماری اصل زندگی شروع ہوتی ہے۔ اس زندگی کا ایک اہم مرحلہ اپنے خالق کے سامنے حاضری اور اپنی اس زندگی کا حساب کتاب دینا ہے۔ چین میں موت اس زندگی کا اختتام سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد کیا ہے، کیا نہیں ہے، چینیوں کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔

ہم نے اس تہوار کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اپنے ایک چینی دوست سے رابطہ کیا۔ ہمارے یہ چینی دوست بھی بہت دلچسپ ہیں۔ یہ بیجنگ میں ایک یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اپنے ایک کورس کے لیے یہ پاکستانی ویب سیریز چڑیل پر پریزنٹیشن تیار کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہم سے اسی سلسلے میں گفتگو کر رہے تھے۔ کہنے لگے کیا پاکستان میں خواتین کی بالکل ایسی حالت ہے؟ ہم نے ان سے کہا کہ وہ 'ایسی حالت' کی وضاحت کریں۔ اس کے بعد ہی ہم ان کے سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔ ہمارے چینی دوست نے یہ معاملہ اگلی ملاقات پر رکھ چھوڑا ہے۔ یہ قصہ آپ کو تب سنائیں گے۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ اس تہوار کو کیسے منائیں گے؟ انہوں نے کہا کہ وہ چار اپریل کو صبح سات بجے اپنے والدین اور پھپھو کے ساتھ اپنے دادا اور دادی کی قبر کی صفائی کرنے جائیں گے۔ ہم نے پوچھا اتنی صبح جانا لازمی ہوتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ صبح سویرے جانا لازمی تو نہیں ہے پر اس کے بعد قبرستانوں میں رش بڑھنا شروع ہو جاتا ہے یعنی چینی بھی ہماری طرح  صبح سویرے ہی کام نمٹا دیتے ہیں تاکہ رش بڑھنے سے پہلے گھر لوٹ سکیں۔

ہمارے چینی دوست نے بتایا کہ وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کی کچھ اشیاء، نقلی نوٹ اور اگر بتیاں بھی لے کر جائیں گے۔ قبر کی صفائی کے بعد وہ یہ چیزیں وہیں رکھ آتے ہیں۔ چینیوں کا ماننا ہے کہ اس سے ان کے وفات شدگان کو ان کی محبت کا یقین رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نقلی نوٹ جلا دیں گے تاکہ وہ ان کے وفات شدگان تک پہنچ سکیں اور انہیں 'دوسری طرف‘ غربت میں نہ رہنا پڑے۔

شاید کچھ سال پہلے تک چین میں یہ تہوار اپنے اصلی معنوں میں منایا جاتا تھا۔ اب یہ بس بزرگوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ نوجوان نسل میں اگر کوئی پرانے خیالات رکھتا ہو تو اس میں دلچسپی لیتا ہے ورنہ یہ ان کے لیے بس ایک چھٹی ہے۔ ویسے بھی چینی نوجوان پڑھائی یا کام کی غرض سے اپنے گھروں سے دور رہ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے ہر تہوار پر گھر جانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ یہ تہوار بڑے شہروں میں اپنے طریقوں سے ہی مناتے ہیں۔ 

اچھی بات یہ ہے کہ یہ تہوار بہار میں آتا ہے۔ ہر طرف رنگ ہی رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔ ان دنوں پارکس میں رش بڑھ جاتا ہے۔ ہر پودے کے پاس دو چار چینی کھڑے تصاویر لیتے نظر آتے ہیں۔ وی چیٹ مومنٹس کھولو تو سب کی پیاری پیاری تصاویر دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔