1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھ سال بعد بھی اسد کا اقتدار محفوظ، شام تباہ حال، جنگ جاری

مقبول ملک
15 مارچ 2017

شام کے خونریز تنازعے کے آغاز کے چھ سال بعد اسد حکومت کو اب جنگی محاذوں پر کچھ کامیابی تو مل رہی ہے لیکن وہ جنگ ابھی بھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی، جو لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا سبب بننے کے علاوہ اس ملک کو کھنڈر بنا چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZCsH
Syrien Bürgerkrieg Luftangriffe in Idlib
چھ سالہ خانہ جنگی کے بعد آج کا شام ایسا دکھائی دیتا ہےتصویر: picture-alliance/AA/B. Baioush

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بدھ پندرہ مارچ کے روز اس موضوع پر اپنے ایک تفصیلی تجزیے میں لکھا ہے کہ اس کئی سالہ خانہ جنگی کے دوران ماضی میں چند برس ایسے بھی رہے ہیں، جب شامی صدر بشارالاسد پر شدید تنقید کرنے والے کئی علاقائی اور مغربی ملکوں کے رہنما یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ مستقبل کے شام میں اسد کا کوئی کردار نہیں ہو گا اور انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا ہی پڑے گا۔

Syrien Präsident Bashar al-Assad
بشارالاسد کی اقتدار پر گرفت چند سال پہلے کے مقابلے میں آج دوبارہ قدرے مضبوط ہو چکی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo

لیکن اب کافی عرصے سے شام میں جنگی صورت حال اور عسکری توازن مسلسل بدل رہے ہیں اور حالات بشار الاسد کے حق میں بہتر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

اس خونریز تنازعے کی ابتدا کے چھ سال بعد آج بشار الاسد کی اقتدار پر گرفت پہلے کی نسبت کچھ مضبوط ہے اور شام کے کئی علاقے بھی دوبارہ حکومتی دستوں کے کنٹرول میں آ چکے ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں جنگ ختم ہو گئی ہے یا جنگ کے اثرات اب دیکھنے میں نہیں آتے۔ شام کئی سالہ لڑائی، گولہ باری اور فضائی بمباری سے جتنا بھی تباہ ہوا ہے، اس تباہی کا دائرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

نتیجہ یہ کہ بالکل کھنڈر بن چکا یہ ملک آج کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے، جن پر حکومتی دستوں، اسد مخالف باغیوں، وار لارڈز، مغرب کے حمایت یافتہ شامی ملیشیا گروپوں اور داعش کے جہادیوں سمیت بہت سے دھڑے قابض ہیں۔

سن دو ہزار سولہ شامی بچوں کے لیے ’تباہ کن‘ رہا

دمشق میں دو بڑے بم حملوں میں کم از کم چھیالیس ہلاکتیں

داعش کے خلاف ٹرمپ کے ٹھوس اقدامات تاحال نظر نہیں آئے، اسد

روئٹرز نے لکھا ہے کہ بہت کم غیر جانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ شامی خانہ جنگی عنقریب ختم ہو جائے گی۔ اس سے بھی کم تعداد میں تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ اسد حکومت کو دوبارہ پورے ملک پر کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔

Symbolbild IS Soldaten
شام کے مختلف حصوں پر کئی مختلف فوجی، باغی، شدت پسند اور جہادی گروپوں کا قبضہ ہےتصویر: picture alliance/ZUMA Press/Medyan Dairieh

ان حالات میں یہ بات تقریباﹰ مسلمہ ہے کہ شامی تنازعے میں مختلف بیرونی طاقتوں کے طور پر جتنے بھی ملک براہ راست یا بالواسطہ فریق بن چکے ہیں، ان کی اکثریت اب بظاہر اس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے کہ انہیں اسد کے آئندہ بھی اقتدار میں رہنے کی تلخ حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہی پڑے گا۔

اس سے بھی زیادہ پریشان کن سچ یہ ہے کہ کسی کو بھی یہ امید نہیں کہ شام میں قیام امن کے لیے سبھی دھڑوں کی حمایت سے کوئی ایسا دیرپا اور نتیجہ خیز معاہدہ طے پا سکے گا، جس کے سبب بے تحاشا تباہی کے بعد اس ملک کی تعمیر نو کا سوچا بھی جا سکے۔

شام میں روسی فوج کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں، ایردوآن

شام میں امریکی فوجی تعینات کر دیے گئے

اعلیٰ امریکی جنرل کا شمالی شام کا خفیہ دورہ

شامی تنازعے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ شام میں قیام امن سے متعلق حکومت، اپوزیشن، اقوام متحدہ، امریکا، اور حال ہی میں ترکی، روس اور ایران کی طرف سے کی جانے والی مجموعی طور پر کئی سالہ کوششوں کا کوئی ایسا مثبت یا طویل المدتی نتیجہ نہیں نکلا، جو یہ امید دلا سکے کہ اس ملک کا تباہی کے بجائے واپس امن کے راستے پر سفر شروع ہو گیا ہے۔

Syrien Kampf um Aleppo
شامی شہر حلب کی ایک تازہ تصویر، جسے حکومتی دستوں نے حال ہی میں عسکریت پسندوں کے قبضے سے چھڑا لیا تھاتصویر: Reuters/O Sanadiki

شام میں امریکا کے ایک سابق سفیر رابرٹ فورڈ کے مطابق حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے تو یہ بات ظاہر ہے کہ اسد اقتدار چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہے، ’’خاص طور پر حلب پر حکومتی دستوں کے دوبارہ قبضے کے بعد تو اس کی کوئی امید نہیں ہے۔‘‘

خود بشار الاسد بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ شامی خانہ جنگی کے دوران 2012ء اور 2013ء سب سے مشکل ترین سال تھے، ’’اگر ہم نے تب اپنی رخصتی کا کبھی نہیں سوچا تھا تو اب ہم ایسا کیسے سوچ سکتے ہیں؟‘‘

انسانی حوالے سے شامی خانہ جنگی کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ تنازعہ اب تک قریب سوا تین لاکھ انسانوں کی جانیں لے چکا ہے، کئی ملین شہری اندرون ملک مہاجر بن چکے ہیں اور مجموعی طور پر کئی ملین دیگر شامی باشندے خطے کی متعدد ہمسایہ ریاستوں سے لے کر مختلف یورپی  ممالک تک میں پناہ لے چکے ہیں اور  انسانی ہلاکتوں، مصائب اور مہاجرت کا یہ سلسلہ ابھی جارے رہے گا۔