1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی ایم کو وارننگ: کیا معاملہ کشیدگی کی طرف جارہا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
7 دسمبر 2018

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پشتون تحفظ موومنٹ کو وارننگ کے بعد پی ٹی ایم کے لہجے میں بھی تلخی آ گئی ہے، جس سے ماحول کے کشیدہ ہنے کا امکان ہے۔ پی ٹی ایم اور اس کے حامی اس پریس کانفرنس پر تنقید کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/39gJi
Pakistan Manzoor Pashtun
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary

واضح رہے کہ کل بروز جمعرات ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے ایک پریس بریفنگ میں پی ٹی ایم کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے ریڈ لائن پار کی تو ریاست اپنے اختیارات استعمال کرے گی۔ آصف غفور کا کہنا تھا کہ فوج نے پی ٹی ایم کے سارے مطالبات تسیلم کیے ہیں۔
پی ٹی ایم کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس تحریک کے خلاف طاقت کا استعمال معاملات کو بگاڑ سکتا ہے۔ ممتاز تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں حالات کشیدگی کی طرف جارہے ہیں،’’آرمی کا کہنا ہے کہ اس نے لینڈ مائننگ کی ٹیموں میں اضافہ کر دیا ہے۔ چیک پوسٹیں بھی ختم کی ہیں اور گمشدہ افراد پر بھی وہ کام کر رہی ہے لیکن پی ٹی ایم ان اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ ان کے جلسوں میں اب بھی اشتعال انگیز نعرے لگتے ہیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو جو بات سب سے زیادہ ناگوار لگتی ہے وہ ہے پی ٹی ایم کے لیے افغان حکومت کی حمایت‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم کے ساتھ نوجوانوں کی اکثریت ہے، جو بہت جذباتی بھی ہیں، لہذا ان کے ساتھ معاملات کو بہت دانشمندانہ انداز میں حل کرنا ہوں گے،’’ذرا سی بھی بے احتیاطی معاملات کو بگاڑنے کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘

Pakistan Manzoor Pashteen
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی معاملات کو طاقت کے بل پر حل کرنے کی کوشش نے ہمیشہ ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے خیال میں ریاست کو پی ٹی ایم کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے ورنہ حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔ پی ٹی ایم کے حامی سیاست دان بھی ریاست کو ایسے ہی مشورے دے رہے ہیں۔

 پی ٹی ایم کی حامی جماعت پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ دہشت گردوں کو وارننگ نہیں دیتے۔ یہ بھارت کو وارننگ نہیں دیتے، جس نے کنڑول لائن پر کئی افراد کو مار دیا ہے۔ ان کی وارننگ بے حال پختونوں کے لیے ہیں، جن کے ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں گھر تباہ ہوئے۔ میرے خیال میں یہ وارننگ پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ پی ٹی ایم ایک سیاسی جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کو دیوار سے لگانے کے نتائج پاکستان کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگانے کی بات ہے تو کیا عمران خان نے فوج کے خلاف باتیں نہیں کیں۔ کیا ایک اور سیاست دان نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات نہیں کی۔ ان نعروں کو جواز بنا کر اگر کوئی کارروائی کرنی ہے، تو پھر صورتحال بہت خراب ہوجائے گی۔‘‘


واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد دعویٰ اور ردِ عوی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ ان کے مطالبات تین نہیں بلکہ زیادہ تھے اور وہ مطالبات پورے نہیں ہوئے ہیں۔ پی ٹی ایم سوات کے رہنما علی حسن نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات مان لیے گئے ہیں،’’ہمار ا پہلا مطالبہ تھا کہ نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کو گرفتار کرنا تھا لیکن راؤ انوار آزادی سے گھوم رہا ہے۔ لینڈ مائننگ ابھی تک بچھی ہوئی ہیں اور انہیں صاف نہیں کیا گیا ہے۔ گمشدہ افراد کے حوالے سے ریاست بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تو ہم کیسے مان لیں کہ ہمارے مطالبات پورے ہو چکے ہیں۔ ہم پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور کسی بھی طور پر اشتعال انگیزی کا شکار نہیں ہوں گے۔‘‘

’ميڈيا نے بہت ظلم کيا ہے اور ٹھيک کردار ادا نہيں کيا‘