’پِنک رُوم‘ قتل گاہ بن گیا
20 مارچ 2015نیوز ایجنسی اے ایف پی نے استنبول سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ تینتیس سالہ متین آوچی نے اپنی اُنتیس سالہ اہلیہ لیلیٰ آوچی کو اُس وقت گلہ کاٹ کر موت کے گھاٹ اُتار دیا، جب وہ وسطی اناطولیہ کے شہر سیواس کی ایک جیل میں اُس سے ملاقات کے لیے گئی تھی۔
جیل کے حکام نے لیلیٰ آوچی اور اُس کے قیدی شوہر کو ’پِنک رُوم‘ کہلانے والے کمرے میں اکیلے ایک دوسرے سے ملنے اور کئی گھنٹے ساتھ گزارنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس موقع پر اِن دونوں میاں بیوی کو پھلوں کی ایک قاب کے ساتھ ساتھ ایک چاقو بھی دیا گیا تھا۔
اے ایف پی نے دوگان نیوز ایجنسی کے حوالے سے بتایا ہے کہ شوہر متین آوچی نے اسی چاقو کو استعمال کرتے ہوئے اپنی بیوی کا گلہ کاٹ دیا اور بعد ازاں اپنی کلائیاں کاٹتے ہوئے اپنی جان بھی لینے کی کوشش کی۔ جب تک جیل حکام کو پتہ چلا، بیوی لیلیٰ آوچی دم توڑ چکی تھی جبکہ شوہر متین آوچی کو زخمی حالت میں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔
متین آوچی اپنے ایک رشتے دار کے قتل کے الزام میں پہلے ہی پندرہ سال کی سزائے قید بھگت رہا تھا جبکہ اب اُسے اپنی بیوی کے قتل کے الزام میں مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا۔
ترکی میں حکام نے 2013ء میں جیلوں میں اصلاحات متعارف کرواتے ہوئے ’پِنک روم‘ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان اصلاحات کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ قیدیوں کو اپنے شریک حیات کے ساتھ دو سے لے کر چوبیس گھنٹوں تک کا وقت گزارنے کی اجازت دی جائے گی۔
ترکی میں ہر سال سینکڑوں خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں اور ترک حکام کی نظر میں یہ صورتِ حال ایک بہت بڑا سماجی مسئلے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
’سٹاپ وائلنس اگینسٹ ویمن‘ (خواتین کے خلاف تشدد بند کرو) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے اپنے ایک بیان میں جیل کے اندر ہونے والے اس قتل پر سخت غم و غصّے کا اظہار کیا ہے۔ اس بیان کے مطابق اس قتل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خواتین کے قاتلوں کو بلا امتیاز عمر قید کی سخت سزائیں سنائی جانی چاہییں۔