1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ کی درخواست مسترد، تو روٹی اور مکان بھی نہيں ملے گا

عاصم سلیم
1 مارچ 2017

آسٹريا حکومت نے ايک ايسے نئے قانون کے مسودے پر اتفاق کر ليا ہے، جس کے تحت حکام کو يہ اختيار ہو گا کہ وہ ایسے افراد کو، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکیں ہیں، کو خوراک اور رہائش جيسی سہوليات کی فراہمی روک سکيں گے۔

https://p.dw.com/p/2YQOa
Deutschland Flüchtlinge überqueren der Grenze von Österreich nach Deutschland
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert

اس نئے مجوزہ قانون کے مسودے کے تحت سياسی پناہ کی درخواستيں مسترد ہو جانے کے بعد اگر متعلقہ درخواست دہندگان رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے پر رضامند نہيں ہوتے، تو پھر انہيں اس قسم کے سخت اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ قانون کے مسودے پر اتفاق منگل کے روز ہوا۔ بل کی حتمی منظوری کی صورت ميں حکام کو يہ اختيارات حاصل ہوں گے کہ وہ اس معاملے ميں تعاون نہ کرنے والے تارکين وطن کو بنيادی سہوليات کی فراہمی روک سکيں گے۔

اس بل کی ابھی ملکی پارليمان سے منظوری باقی ہے۔ در اصل يہ پيش رفت آسٹريا ميں غير ملکيوں کے حوالے سے قوانين ميں جاری وسيع تر اصلاحات و تراميم کی ايک کڑی ہے۔ وہاں بہت سے نئے اقدامات متعارف کرائے جا رہے ہيں جيسا کہ اپنی شناخت کے بارے ميں غلط بيانی کرنے والے پناہ گزينوں پر جرمانہ بھی عائد کيا جا سکتا ہے اور چند واقعات ميں انہيں جيل بھی بھيجا جا سکتا ہے۔

آسٹريا کی حکومت ملک ميں دائيں بازو کی فريڈم پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبوليت کو محدود رکھنے کے ليے اس سلسلے ميں پاليسی سازی کر رہی ہے۔ دسمبر سن 2016 ميں وہاں ہونے والے صدارتی اليکشن ميں فريڈم پارٹی کی کارکردگی کافی اچھی رہی اور يہ جماعت معمولی فرق سے ہی ہاری۔

نئے مجوزہ قانون کے بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے آسٹريا کے وزير داخلہ وولف گانگ سبوٹکا کا کہنا ہے کہ جن درخواست دہندگان کی درخواستيں مسترد ہو جاتی ہيں اور وہ پھر بھی ملک چھوڑنے پر راضی نہيں، انہيں نتائج بھگتنا پڑيں گے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’سب سے پہلے تو اگر انہيں آسٹريا ميں قيام کی اجازت نہيں تو انہيں رياست کی جانب سے کوئی سہوليات فراہم نہيں کی جائيں گی۔‘‘ سبوٹکا کے بقول اس قانون کا مقصد ناکام درخواست دہندگان پر رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کے ليے دباؤ ڈالنا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مقامی دفتر نے اس بل کو متنازعہ قرار ديتے ہوئے قانون سازوں پر زور ديا ہے کہ وہ اس کے بارے ميں دوبارہ سوچيں۔

سن 2015 ميں تقريباً نوے ہزار تارکين وطن سياسی پناہ کے ليے آسٹريا پہنچے تھے، جو اس ملک کی مجموعی آبادی کے ايک فيصد حصے کے برابر ہے۔ بعد ازاں آسٹريا نے بھی ديگر يورپی ممالک کی طرح سرحدی بندشيں اور سختياں متعارف کرا دی ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس جمع کرائی جانے والی پناہ کی درخواستوں ميں اس سے پچھلے برس کے مقابلے ميں نصف سے بھی زيادہ کی کمی ‌آئی ہے۔

آسٹريا ميں اس وقت تقريباً چار ہزار ايسے مہاجرين ہيں جن کی درخواستيں مسترد ہو چکی ہیں۔ بل کی ممکنہ منظوری کی صورت ميں ان ميں سے دو ہزار فوری طور پر متاثر ہو سکتے ہيں۔ آسٹريا ميں ناکام درخواست دہندگان کی اکثريت کا تعلق پاکستان، افغانستان اور نائجيريا سے ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید