1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور کے ہاسٹلوں میں رہائش پذیر کم عمر طلباء اور جسم فروشی

مدثر شاہ پشاور
23 جنوری 2018

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں نجی ہاسٹلوں میں رہائش پذیر کم عمر طلباء میں جسم فروشی کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ طلباء بعض اوقات پیسوں کے لیے جبکہ بعض مرتبہ شوقیہ طور پر اس فعل میں ملوث ہو جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2rMbK
Afghanistan - Afghanischer Junge der als Sex-Sklave Missbraucht wurde
تصویر: Getty Images/AFP/A. Karimi

خیبر پختونخوا کا صوبائی دارالحُکومت پشاور، علمی اور ثقافتی تاریخ کا حامل شہر ہے۔ صوبےکے تقریباﹰ ہر شہر اور دیہات سے تعلق رکھنے والے بچے تعلیم کے حصول کے لیے پشاور ہی کا رخ کرتے ہیں۔ معاشی طور پر مضبوط خاندان اکثر بچوں کو تعلیم دلانے کی غرض سے پشاور منتقل ہو جاتے ہیں لیکن بعض امیر اور مڈل کلاس خاندان اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرتے ہیں جہاں ہاسٹلوں کا بندوبست ہوتا ہے۔ اکثر اوقات والدین اپنے بچوں کی رہائش کا بندوبست نجی ہاسٹلوں میں بھی کر دیتے ہیں۔ زیادہ تر بچے یہیں سے غلط صحبت اختیار کر تے ہیں۔

17 سالہ جواد خان، ( نام تبدیل کر دیا گیا ہے) شام چار بجے اپنے بیمار رشتہ دار کی عیادت کے بہانے اسکول سے چار گھنٹے کی چھٹی لے کر پشاور کے علاقے ڈبگری کی طرف جا رہا ہے۔ وہ پشاور کے ایک معروف نیم پرائیویٹ اسکول میں میٹرک کا طالب علم ہے اور گزشتہ تین سالوں سے اسکول کے ہاسٹل میں ہی رہتا ہے۔ جواد خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ یہ شرمندگی کا باعث ہےکہ میرے ہم جماعتوں کے پاس تو مہنگے موبائل فون اور خرچے کے لئے ڈھیر سارے پیسے ہوں، اچھی اور مہنگی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہوں جبکہ مجھ جیسوں کو بمشکل اسکول فیس اور جیب خرچ ہی ملتا ہے تو پھر اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟‘‘

’جنسی کاروبار کو ناقابل تعزیر قرار دیا جائے‘

جواد ایک چھوٹے سے گھر میں داخل ہوتا ہے جس کے دروازے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت علاقے کی اوّلین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ دروازے کے ساتھ ہی سیڑھیاں اوپر کو جاتی ہیں۔ ممکن ہے کہ اوپر مزید کمرے بھی ہوں لیکن جواد نیچے  بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا جہاں پہلے سے ہی کوئی اُس کا انتظار کر رہا تھا۔

صوبہ خیبرپختون خواہ میں ایڈز کے مرض کی بنیادی وجہ

جواد کے عمر کے چند دیگر طلباء بھی وہاں موجود تھے۔ اُن میں سے ایک کی عمر بمشکل پندرہ سال ہوگی۔ اُس لڑکے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’مجھے موٹر سائیکل چلانے کا بہت شوق تھا۔ میرے اسکول کے ایک سینیئر لڑکے کے پاس بہت زبردست موٹر سائیکل ہے۔ ایک دن وہ مجھے موٹر سائیکل سکھانے کے دوران ایک گیسٹ ہاؤس لے گیا اور بس اس کے بعد عادت سی ہو گئی۔‘‘

Deutschland unbegleitete minderjährige Ausländer in Karlsruhe
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck

تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں کرتے ہوئے ان لڑکوں میں سے کوئی بھی نہ تو پریشان اور نہ ہی شرمندہ دکھائی دے رہا تھا۔

’’میرا مقصد پیسے کمانا اور لطف اندوز ہونا ہے۔ میں جو کرتا ہوں اُس کو انجوائے کرتا ہوں۔‘‘ درمیان میں بیٹھے لمبے والوں والے اور مہنگا سوٹ پہنے ہوئے ایک لڑکے نے گفتگو کو ختم کرتے ہوئے کہا۔

رواں ماہ کی بیس تاریخ کو پشاور میں اپنے کلاس فیلو کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے گراؤنڈ جانے والے نویں جماعت کے ایک طالب علم کو جنسی مقاصد کے لیے زبردستی اٹھا لیا گیا تھا۔

جنسی زیادتی کا شکار مذکورہ لڑکے کے بھائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ جلد ہی علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ حالانکہ پولیس نے وقت ضائع کیے بغیر ایف آئی آر بھی درج کر لی تھی اور نامزد ملزم کو بھی گرفتار کر لیا تھا تاہم لڑکے کے بھائی کا کہنا تھا،’’اب ہم میں حوصلہ نہیں کہ لوگوں کا سامنا کریں۔‘‘

قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے علی اکبر سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ علی اکبر نے ڈی ڈبلیو سے اس سماجی مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا،’’بچوں کے ساتھ جنسی بد فعلی اور نوجوان لڑکوں کے جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے غیر فطری طریقوں پر مبنی رحجانات کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب اپنے بچوں کے ساتھ دوست کی طرح پیش آنا ہو گا۔ اگرچہ ہمارا تعلق قدامت پسند ثقافت سے ہے لیکن اب ہمیں بدلنا ہو گا ورنہ یا تو ہمارے بچے شوقیہ طور پر غیر فطری جنسی رویوں کی طرف مائل ہوں گے یا پھر ان کے ساتھ زبردستی غیر فطری جنسی زیادتی کی جائے گی۔‘‘

عظمت علی پشاور میں ایک نجی ٹی وی کے لیے بطور رپورٹر کام کرتے ہیں۔ عظمت کا اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ،’’کچھ واقعات کے ہم چشم دید گواہ ہوتے ہیں لیکن بحثیت صحافی جب کوئی اور اس بات کی گواہی نہ دے اور متعلقہ شخص یا کوئی تیسرا فرد ہم سے اس واقعے کی تصدیق نہ کرے تو ہماری رپورٹ میں جان نہیں پڑتی۔‘‘