1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور حملہ: امدادی کارروائیاں مکمل

فریداللہ خان، پشاور
31 جنوری 2023

خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور کے پولیس لائن مسجد میں ریسکیو آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے۔ دھماکے کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ اور انسپکٹر جنرل پولیس نے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔

https://p.dw.com/p/4MvKs
تصویر: Faridullah Khan/DW

پشاور کے انتہائی حساس علاقے میں واقع پولیس لائن میں ہونے والے دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے تضاد پایا جاتا ہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہلاک شدگان کی اب تک کی تعداد 100ہے جبکہ ہسپتال میں 53 زیر علاج ہیں، جن میں سے سات کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر پشاور نے بتایا ہے کہ اس سانحے میں 93 شہری ہلاک ہو چکے ہیں تاہم نگران وزیر اعلیٰ محمد اعظم خان نےمیڈیا یہ تعداد 95 بتائی ہے۔ مسجد میں ملبہ ہٹانے کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ تحقیقاتی ٹیموں سمیت انجینئرنگ کے شعبے کے ماہرین نے بھی مسجد کا دورہ کیا ہے۔

Pakistan Peshawar Explosion der Polizeilinie
خود کش حملہ آور کی شناخت کا عمل جاری ہےتصویر: Faridullah Khan/DW

حکومت کی ناکامی ہے، شوکت علی یوسفزئی

 سابق صوبائی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان شوکت علی یوسفزئی کا کہنا تھا، ''امن امان کے حوالے سے صوبے کے لیے پالیسی بنانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ رجیم چینج کے بعد ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔ ہمارے دور حکومت میں اداروں نے مشکل حالات پر قابو پایا تھا لیکن ہماری حکومت ختم کی گئی تو اتحادی جماعتوں (پی ڈی ایم) کی پالیسیوں کی وجہ سے حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک دلخراش واقعہ ہے جس پر پورا ملک دل گرفتہ ہے۔ ان کے بقول عوام امن چاہتے ہیں لیکن حکمران عوام کو امن سمیت ریلیف دینے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔‘‘

تحقیقات کا آغاز

تحقیقاتی ٹیموں کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کسی گاڑی کے ذریعے بارودی مواد مسجد پہنچایا گیا تھا۔ دھماکے کے روز پولیس لائن میں داخل ہونے والوں کی تعداد کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس دن 140 افراد پولیس لائن میں داخل ہوئے تھے۔ جبکہ ان راستوں پر سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔

انسپکٹر جنرل پولیس

انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے جائے وقوعہ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کوناکافی حفاظتی انتظامات کا نتیجہ قرار دیا، ''حملہ آور غیرمسلح شخص مہمان کی شکل میں پولیس لائن کے اندر داخل ہوا تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ دھماکے کے لیے 10 سے  12 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا ہے۔ 

معظم جاہ انصاری کے بقول خود کش حملہ آور کی شناخت کا عمل جاری ہے، جب کہ دھماکے کے ماسٹر مائنڈ اور تمام سہولت کاروں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے گا، ''حفاظتی انتظامات میں کوتاہی کہاں ہوئی ہے اس کے لیے بھی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ تمام تحقیقات مکمل ہونے کے بعد حتمی بیان جاری کیا جائے گا۔‘‘

Pakistan | Explosion in einer Moschee in Peshawar
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کسی گاڑی کے ذریعے بارودی مواد مسجد پہنچایا گیا تھاتصویر: MAAZ ALI/AFP/Getty Images

پشاور پولیس لائن بنیادی طورپر 600 اہلکاروں کے لیے بنائی گئی تھی جبکہ اس وقت اس میں آٹھ مختلف دفاتر ہیں اس کے علاوہ یہاں دو ہزار سے زیادہ اہلکاروں کے ساتھ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی رہائش گاہیں ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان سے گزشتہ حکومت نے بات چیت کا آغاز کیا تھا تاہم اس حوالے سے کوئی منصوبہ نہیں بنائی گئی تھی کہ بات چیت کی ناکام کی صورت میں کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

ریسکیو آپریشن مکمل کر لیا گیا

ریسکیو 1122نے پولیس بم دھماکے میں ملبہ ہٹانے اور لاشیں نکالنے کا آپریشن مکمل کرلیا  ہے۔ ریسکیو کے ترجمان بلال فیضی کے مطابق آپریشن کے دوران 146 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اس دوران ڈیڑھ سو سے زیادہ اہلکاروں نے آپریشن میں حصہ لیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے کے سات اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد کی میتیں ان کے آبائی علاقوں میں پہنچائی گئیں۔

انتخابات کے ملتوی ہونے کا خدشہ

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردیکی لہر ایک بار پھر سے سر اٹھانے لگی۔ اس نئی لہر میں ایسے وقت میں شدت آئی ہے، جب پاکستان میں نئے انتخابات کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کی حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ ملک میں افراتفری اور دہشت گردی کی نئی لہر کی وجہ سے انتخابات ملتوی کر دیے جائیں۔