1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی ہم جنس پرست مہاجرین کے لیے جرمنی میں مشکلات

16 جولائی 2017

جرمنی میں ہم جنس پرست مہاجرین  سے ’بد سلوکی اور نفرت‘ کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے مہاجرین کی معاونت کرنے والے ایک ادارے کے مطابق سب سے زیادہ مشکلات کا شکار پاکستانی ہم جنس پرست تارکین وطن  ہیں۔

https://p.dw.com/p/2gcUk
Köln Christopher Street Day 2016
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hitij

'رین بو ریفیوجیز‘ ایک ایسا ادارہ ہے جو ’ایل جی بی ٹی‘ مہاجرین کو مختلف مرحلوں پر معاونت فراہم کرتا ہے۔ ایل جی بی ٹی سے مراد مختلف جنسی میلانات و رحجانات رکھنے والے افراد ہیں، جن میں خواتین ہم جنس پرست، مرد ہم جنس پرست، بائی سیکشوئل اور ٹرانسجینڈر یعنی مخنّث افراد بھی شمار کیے جاتے ہیں۔

دوسری جانب یہ ادارہ ایسے پناہ گزینوں کو اُن کی پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد کے دوران مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے کا قیام سن 2015 میں عمل میں لایا گیا تھا۔ رین بو ریفیوجیز کے بورڈ ممبر کنوڈ ویشٹر شٹائن سے ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے کہ جرمنی میں ہم جنس پرست مہاجرین کو کن مسائل کا سامنا ہے ایک انٹرویو کیا۔

ڈی ڈبلیو: جرمنی نے حال ہی میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دی ہے۔ اس اقدام سے ہم جنس پرست مہاجرین کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟

کنوڈ ویشٹر شٹائن: اس اقدام سے ایسے مہاجرین کو کوئی فائدہ پہنچتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ جرمن حکومت  ہم جنس پرست اور مخنث تارکین وطن کو پناہ نہیں دیتی۔ حالانکہ انہوں نے اپنے ملکوں کو صرف اس لیے چھوڑا کیونکہ وہاں اُن پر ظلم ہوتا تھا۔ ہمیں اس مسئلے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Bildergalerie Flüchtlingsunterbringung in Deutschland
پناہ گزین کیمپوں میں ہم جنس پرست مہاجرین پر زبانی اور جسمانی تشدد کے متعدد کیس سامنے آئے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

ڈی ڈبلیو: ’ایل جی بی ٹی‘ مہاجرین کو جرمنی میں کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

کنوڈ ویشٹر شٹائن: جرمنی آنے والے ہم جنس پرست مہاجرین کو یہاں بھی کم و بیش ویسی ہی نفرت آمیز فضا کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اُن کے اپنے ممالک میں تھی۔ انہیں شیلٹرز میں دوسرے مہاجرین کی جانب سے زبانی بد سلوکی اور تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں انہیں باقی مہاجرین خود سے گھلنے ملنے نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ ہم جنس پرست افراد کی پناہ کی درخواستیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کے ملکوں میں اُن پر مظالم کیے جاتے ہیں، مسترد کر دی جاتی ہیں۔

ڈی ڈبلیو: سب سے زیادہ کن ملکوں کے ہم پرست مہاجرین کو ایسے مسائل کا سامنا ہے؟

کنوڈ ویشٹر شٹائن: پاکستانی ہم جنس پرست مرد اور مخنث مہاجرین کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہم جنس پرستی قانوناﹰ منع ہے اور اس کی سزا کم سے کم دس برس سزائے قید ہے۔ پاکستان میں بہت سے ہم جنس پرست افراد کے گھر والوں نے بھی ان سے رشتہ ختم کر لیا ہے جبکہ  اُنہیں معاشرتی سطح پر  تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

Knud Wechterstein, Rainbow Refugees Frankfurt
رین بوریفیوجیز کے کنوڈ ویشٹر شٹائنتصویر: privat

تاہم مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے وفاقی جرمن ادارے’بی اے ایم ایف’ کو اصولاﹰ پاکستانی مہاجرین کی درخواست کو مسترد کرنا پڑتا ہے چاہے وہ اپنے ہم جنس پرست ہونے اور ملک چھوڑنے کی وجہ ہم جنس پرستی ہونے کا ثبوت ہی کیوں نہ فراہم کر دیں۔

اس کے علاوہ تیونس، الجزائر، اور مراکش سے آنے والے ہم جنس پرست تارکین وطن بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ان ممالک کو محفوظ سمجھا جاتا ہے تاہم وہاں ہم جنس پرستوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

رین بو ریفیوجیز کے کنوڈ ویشٹر شٹائن کا کہنا ہےکہ اُن کی تنظیم مختلف جنسی میلانات و رحجانات رکھنے والے ’ ایل جی بی ٹی‘ مہاجرین کے ساتھ اکثر و بیشتر کام کرنے والے سماجی کارکنوں اور رضاکاروں کو تربیت دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔