1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی پولیس نے غریب مسیحی جوڑے کو مشتعل ہجوم سے بچا لیا

امجد علی2 جولائی 2015

ایک مشتعل ہجوم ایک مسیحی میاں بیوی کو توہینِ مذہب کے الزام میں موت کے گھاٹ اُتار دینا چاہتا تھا لیکن پاکستانی پولیس نے بروقت مداخلت کرتے ہوئے اس جوڑے کی جان بچا لی۔ اشتعال دلانے والے ایک مولوی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Frwr
Pakistan Blasphemie Proteste gegen Mädchenschule in Lahore
یہ تصویر اکتیس اکتوبر 2012ء کی ہے، جب ایک مشتعل ہجوم نے لاہور میں توہینِ مذہب کے الزام میں ایک اسکول پردھاوا بول دیا تھاتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لاہور سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ صوبہٴ پنجاب کے مکّی نامی قصبے میں اس ہفتے منگل کو پیش آیا تھا۔ پولیس کی بر وقت اور کامیاب مداخلت کا یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، ورنہ عام طور پر اس طرح کے واقعات میں توہینِ مذہب کے غیر ثابت شُدہ الزامات میں بہت سے لوگ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔

ضلعی پولیس چیف سہیل ظفر چٹھہ نے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ اس ناخواندہ مسیحی جوڑے کو کہیں سے اشتہار کے طور پر استعمال ہونے والی پَینافلیکس شِیٹ ملی تھی، جسے یہ اپنے گھر میں سونے کے لیے گدے کے طور پر بچھاتے تھے۔ اس شِیٹ پر مختلف کالجوں کے نام اور مختلف نعرے لکھے ہوئے تھے۔

کالجوں کے ان اشتہارات میں عربی زبان میں ایسی تحریریں بھی تھیں، جو مبینہ طور پر قرآنی آیات پر مشتمل تھیں۔ یہ پتہ چلنے کے بعد ایک مقامی حجام کے ساتھ ساتھ دو مولویوں نے بھی اس مسیحی جوڑے پر مذہبِ اسلام کی توہین کا الزام عائد کر دیا۔

ضلعی پولیس چیف سہیل ظفر چٹھہ نے اپنی فیس بُک پر لکھا:’’اس قصبے کے باشندے وہاں جمع ہو گئے اور اُنہوں نے اس غریب جوڑے کو گھسیٹ کر گھر سے باہر نکالا، جسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اُس کا جرم کیا ہے۔ لوگ اُنہیں جان سے مار دینا چاہتے تھے۔ پولیس نے بر وقت مداخلت کی اور اس مسیحی جوڑے کو مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سے بچا کر لاہور منتقل کر دیا، جہاں دونوں میاں بیوی کو مسیحی کمیونٹی کے بزرگوں کے حوالے کر دیا گیا۔‘‘

پولیس نےمولویوں میں سے ایک کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ دوسرے مولوی کے ساتھ ساتھ حجام بھی مفرور ہے۔ پولیس نے کچھ مقامی افراد سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ الزام لگانے والا حجام غالباً اس مسیحی جوڑے کا گھر حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔

حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین بہت سخت ہیں اور اکثر لوگ اپنے ذاتی تنازعات کو نمٹانے کے لیے اقلتیوں اور غریبوں کے خلاف ان قوانین کا سہارا لیتے ہیں۔

حقوقِ انسانی کے ایک مسیحی وکیل ندیم اینتھنی نے پولیس کی کارروائی کو سراہا ہے:’’یہ ایک مثبت پیشرفت ہے کہ پولیس اپنی ذمے داریوں کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اس طرح کے معاملات میں متاثرین کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔‘‘ ندیم اینتھنی نے کہا کہ اُسے تین اور کیسز کا بھی علم ہے، جہاں حکام نے بر وقت مداخلت کی:’’اگر ریاست اور اُس کے ادارے اسی طرح اپنی ذمے داریاں انجام دیتے رہیں تو اُن عناصر کی حوصلہ شکنی ہو گی، جو قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔‘‘

Polizist in Pakistan
کوٹ رادھا کشن کا وہ بھٹہ، جہاں مزدوری کرنے والے شہزاد مسیح اور اُس کی حاملہ بیوی شمع بی بی کو بری طرح سے مارنے پیٹنے کے بعد ایک جلتی بھٹی میں پھینک دیا تھاتصویر: AFP/Getty Images/A. Ali

واضح رہے کہ پاکستان کی بیس کروڑ کی آبادی میں مسیحیوں کا تناسب محض تقریباً دو فیصد ہے اور وہ حالیہ برسوں کے دوران مشتعل افراد کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کے بھی حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

گزشتہ سال ایک بھٹے پر مزدوری کرنے والے شہزاد مسیح اور اُس کی حاملہ بیوی شمع بی بی کو پندرہ سو سے زائد افراد پر مشتمل ایک مشتعل ہجوم نے بری طرح سے مارنے پیٹنے کے بعد ایک جلتی ہوئی بھٹی میں پھینک دیا تھا۔ اس واقعے سے پہلے یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ اس مسیحی جوڑے نے قرآن کے صفحات کو کوڑے میں پھینک دیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید