1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ

اعزاز سید اسلام آباد
2 مئی 2019

انتیس اپریل کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس غیر معمولی تھی، جس میں قومی اسمبلی کے دو منتخب ارکان پر بھی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے۔ اعزاز سید کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3HpLt
تصویر: Azaz Syed

آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اس پریس کانفرنس میں پہلی بار صرف پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور اس کے رہنماؤں پر ہی نہیں بلکہ اس تنظیم سے منسلک دو ایسے ارکان قومی اسمبلی پر بھی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے، جو آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن جیت کر وفاقی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اکثر پاکستانیوں کی طرح میرے ذہن پر بھی آئی ایس پی آر کے ڈی جی کی طرف سے عائد کردہ الزامات کسی ہتھوڑے کی طرح لگے ۔ میرے لیے یہ بات بھی حیران کن تھی کہ پارلیمان کے جاری اجلاس کے دوران اس پریس کانفرنس پر خود قومی اسمبلی کا ردعمل کیسا ہوگا کیونکہ محسن داوڑ اور علی وزیر فاٹا سے منتخب ارکان قومی اسمبلی ہیں۔

ٹی وی پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی نیوز کانفرنس دیکھنے کے بعد شام کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد پہنچا، جہاں قومی اسمبلی کا اجلاس تقریباﹰ ختم ہونے کو تھا،  تو کسی دوست نے بتایا کہ اجلاس کے دوران محسن داوڑ بولنے کے لیے کھڑے ہوئے مگر کچھ دیر بعد ان کا مائیک بند کر دیا گیا تھا اور یوں ان کی بات مکمل نہ ہو سکی تھی۔ پھر یہ بھی کہا گہا کہ شاید وہ پارلیمان کے باہر پریس کانفرنس کریں گے۔ میں پارلیمان کی عمارت کے پہلے فلور کی راہداریوں میں ہی تھا کہ کسی نے قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے کی صدا لگائی۔ سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھائے، تو محسن داوڑ اور علی وزیر صحافیوں کے جھرمٹ میں پارلیمنٹ کی عمارت سے باہر کی طرف قدم اٹھاتے نظر آئے۔ انہیں راستے میں جگہ جگہ روک کر مختلف افراد ان کے ساتھ سیلفیاں بنا رہے تھے۔ لوگ ان سے پیار سے مل رہے تھے مگر دونوں کے چہروں پر سنجیدگی نمایاں تھی۔ ظاہر ہے  انہیں بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا مکمل اندازہ تھا۔

باہر پہنچے تو ٹی وی چینلز کے کیمرہ مین اپنے اپنے کیمرے بند کر کے بیگوں میں ڈال رہے تھے۔ کچھ نے آواز لگائی کہ وہ مزید کوریج نہیں کریں گے ۔ ایک آدھ نے حالات کی نزاکت کو سمجھا اور اپنے کیمرے نکال کر دوبارہ سٹینڈ پر نصب کر دیے کہ ان دونوں منتخب ارکان کی پریس کانفرنس کی کوریج کی جا سکے ۔ یہ دونوں عوامی نمائندے میڈیا سے پہلے ہی مایوس تھے کہ چند روز قبل انہیں اسلام آباد پریس کلب میں کلب کی انتظامیہ نے پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا تھا۔ ایک کیمرہ مین کی دیکھا دیکھی سات دیگر ٹی وی چینلز کے کیمرہ مینوں نے بھی اپنے اپنے کیمرے دوبارہ نکال کر سٹینڈز پر لگا دیے۔ کسی نے جملہ کسا، ان کی خبر چلے گی تو نہیں، لیکن پھر بھی ہم اپنا فرض تو ادا کریں۔ شاید کیمرہ مینوں کو بھی علم تھا کہ اب ان ارکان اسمبلی کی خبر کوئی ٹی وی چینل یا اخبار نہ تو نشر کرے گا اور نہ ہی شائع۔

دونوں ارکان روسڑم پر آئے اور بولے، اگر ان پر لگائے گئے الزامات ثبوتوں سمیت کسی پارلیمانی کمیشن یا کمیٹی کے سامنے لائے جائیں اور انہیں بھی بلا لیا جائے، تو سب کچھ واضع ہو جائے گا۔ انہوں نےمزید کہا کہ اگر ان پر لگائے گئے الزامات سچ ثابت ہوجائیں، تو انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ کسی نے ان سے ان کی سکیورٹی کے بارے میں سوال کیا تو محسن داوڑ بولے کہ اگر انہیں کچھ ہوا، تو اس کی ذمہ دار پاکستانی ریاست ہو گی۔ محسن داوڑ اور علی وزیر نیوز کانفرنس کر کے پارلیمنٹ ہاؤس سے نکل گئے تو میں ان سوچوں میں گم گھر پہنچا کہ پارلیمان کے احاطے میں ان منتخب عوامی نمائندوں کی گفتگو آزاد میڈیا کی زینت بن پائے گی یا نہیں؟  لیکن کیمرہ مین کی بات سچ نکلی۔ آزاد میڈیا سوتا رہا۔ کسی بھی جگہ محسن داوڑ اور علی وزیر کا موقف سامنے نہ آ سکا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میڈیا ہی نہیں، خود پارلیمان بھی سو رہی ہے کیونکہ ان ارکان کو ایوان کے اندر بھی بولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

اگلے دن ایک خوشگوار خبر ضرور نظر سے گزری۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری محسن داوڑ اور علی وزیر سے پارلیمنٹ ہاؤس میں ملے۔ اس ماحول میں ان سے ملنا بھی غنیمت تھا، یعنی پارلیمان میں موجود بڑی جماعتیں اس معاملے کی نزاکت کو سمجھ رہی تھیں۔

پھر یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کی چھٹی گزری تو آج دو مئی کو پارلیمان میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس بھی طے تھا۔ صبح سوا دس بجے قائمہ کمیٹی کا اجلاس اس کے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے ریاض فتیانہ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے کانسٹیٹیوشن ہال میں جاری تھا۔ کمرے میں نظر دوڑائی، تو اجلاس میں محسن داوڑ اور علی وزیر بھی موجود تھے۔ اجلاس کا ایجنڈا دیکھا تو پتہ چلا کہ محسن داوڑ نے آئینی ترمیم کا ایک مسودہ کمیٹی کے سامنے پیش کر رکھا تھا، جس میں فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے قبل وہاں کی نشستوں کی تعداد میں اضافے اور اگلی مردم شماری تک قومی اسمبلی میں فاٹا ارکان کی بارہ نشستیں قائم رکھنے کی استدعا کی گئی تھی۔ محسن داوڑ نے اجلاس میں یہ موقف اختیار کیا کہ مردم شماری میں فاٹا سے نقل مکانی کرنے والوں کے لیے فارم میں کوئی الگ خانہ نہیں رکھا گیا۔ اس طرح فاٹا کے لوگوں کا مردم شماری میں صحیح شمار نہیں کیا گیا۔ داوڑ کے اس موقف پر اجلاس میں موجود ارکان اسمبلی نے بات چیت کا آغاز کیا تو اچانک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رانا ثنااللہ کی گرج دار آواز بلند ہوئی۔

رانا ثنااللہ بولے کہ ان ارکان قومی اسمبلی پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس سے تعلق اور رقوم لینے کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ ان ارکان سے پوچھا جانا چاہیے، حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ یہ ارکان جواب دیں، ورنہ ہم ان کی موجودگی میں اس اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے۔ رانا ثنااللہ نے اجلاس میں شریک حکومتی رکن اسمبلی اور وزارت قانون و انصاف کی پارلیمانی سیکرٹری ملائکہ بخاری سے سوال پوچھا کہ اس بارے میں حکومت کی پوزیشن کیا ہے؟ رانا ثنااللہ کو علم تھا کہ ملائکہ بخاری پارلیمانی معاملات میں نووارد ہیں، اس لیے وہ کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کریں گی۔

ملائکہ بخاری پہلے تو کچھ کنفیوژ ہوئیں، پھر بولیں کہ یہ الگ معاملہ ہے، اسے الگ ہی رکھا جائے لیکن کسی کو بھی پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا کوئی حق نہیں ہے، ’’ڈی جی آئی ایس پی آر نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔‘‘ اس پر رانا ثنااللہ دوبارہ بولے، ’’کیا آپ کی نظر میں ان ارکان قومی اسمبلی نے ملکی سالمیت کو نقصان پہنچایا ہے؟‘‘ اس پر ملائکہ بخاری پھر کچھ پریشان ہوگئیں اور بولیں، ’’یہ الگ معاملہ ہے۔‘‘

معاملہ آگے بڑھا تو دیگر ارکان اسمبلی  اس صورت حال کو نظر انداز کر کے مجوزہ آئینی ترمیم پر بات کرنے لگے۔ ملائکہ بخاری نے تب موقع جان کر اجلاس سے رخصتی میں عافیت سمجھی۔ علی وزیر کے ساتھ بیٹھے محسن داوڑ سے البتہ رہا نہ گیا۔ وہ بولے، ’’ہم پر الزام نہیں لگنا چاہییں۔ ہم کہتے ہیں کہ ملکی سالمیت تو کیا کسی کو ملکی آئین توڑنے کی اجازت بھی نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ داوڑ نے گلہ کیا کہ انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں بات نہیں کرنے دی گئی، پریس کلب میں بھی بات کی اجازت نہیں دی گئی۔ ’’اگر کسی کا موقف درست ہے، تو بات کرنے پر پابندی تو عائد نہیں کی جانا چاہیے۔‘‘

اس پر اجلاس کے صدر ریاض فتیانہ بولے، ’’میری نظر میں ان دونوں ارکان اسمبلی نے آئین پاکستان پر حلف اٹھا رکھا ہے۔ قومی ترانے پر دونوں ایوان میں کھڑے ہوتے ہیں۔ میری نظر میں یہ محب وطن ہیں۔ ہاں، ان کی سوچ پروگریسیو ضرور ہے۔‘‘ ریاض فتیانہ کا یہ کہنا ہی تھا کہ اجلاس میں شریک پیپلز پارٹی کے نوید قمر بھی بول اٹھے کہ انہیں بھی ان ارکان کے محب وطن ہونے پر کوئی شبہ نہیں اور ’نہ ہی ہمیں کسی سے محب وطن ہونے کے کسی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے‘۔

اجلاس میں شریک بشیر ورک اور خواجہ سعد رفیق بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ دونوں نے محسن داوڑ اور علی وزیر کے محب وطن ہونے پر اپنے اپنے بیانات دیے اور کمیٹی کا اجلاس ختم ہو گیا۔ یہ دونوں ارکان اسمبلی کمیٹی روم سے نکلتے وقت مسکرا رہے تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں، پاکستان کی وفاقی پارلیمان اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

جنوری کے مہینے میں سینیٹ کے اجلاس کے دوران سینیٹر بیرسٹر سیف نے پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں ایوان میں کھل کر بات کی تھی اور اس تحریک کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اسی معاملے پر چیئرمین سینیٹ نے بیرسٹر سیف کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی، جس نے اپنے ایک اجلاس میں پی ٹی ایم کے منظور پشتین اور اسی جماعت سے منسلک محسن داوڑ اور علی وزیر کو بلا کر ان کے موقف سنے تھے۔ مگر اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ ماحول پر خوف اور بے یقینی کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ مگر اس ماحول میں بھی پاکستانی پارلیمان پی ٹی ایم کے معاملے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

کسی بھی دوسرے جمہوری ملک کی طرح پاکستان میں بھی پارلیمان ملک کا اعلیٰ ترین اور معتبر ترین ادارہ ہے۔ پارلیمان کی اسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اگر پی ٹی ایم کا معاملہ بھی اس مقننہ کو سونپ دیا جائے، تو سیاسی اور ریاستی دانش مندی کے تقاضوں کے تحت یہ ایک بہتر فیصلہ ہو گا۔

نوٹڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔