1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی ٹی وی پر ترک ثقافتی یلغار

امجد علی27 نومبر 2013

عثمانی ترکوں کی سلطنت کا دائرہ کبھی بھی آج کے پاکستان تک وسیع نہیں ہوا تھا تاہم آج کے ترکی کی ثقافتی یلغار نے پاکستان کی ٹی وی صنعت اور وہاں کی قدامت پسند اسلامی قدروں کو بہرحال خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1APWW
مسقط کے بین الاقوامی فلمی میلے میں شریک ترکی کی ایک ٹی وی سیریل ’نور‘ کے مرکزی اداکار
مسقط کے بین الاقوامی فلمی میلے میں شریک ترکی کی ایک ٹی وی سیریل ’نور‘ کے مرکزی اداکارتصویر: MOHAMMED MAHJOUB/AFP/Getty Images

ترکی کی ٹیلی وژن سیریلز پاکستانی ناظرین میں خاصی مقبول ہیں تاہم کچھ پاکستانی فنکار اور سیاستدان اس صورتِ حال سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جہاں زیادہ تر پاکستانی خواتین شلوار قمیض کی صورت میں ایسا بھاری لبادہ پہنے ہوتی ہیں کہ جس میں اُن کا تقریباً پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے، وہاں کچھ ترک ڈراموں میں نظر آنے والی اداکاراؤں نے منی اسکرٹس پہنی ہوتی ہیں اور اُن کے ملبوسات اُن کے جسم کو چھپانے کی بجائے اور نمایاں کر رہے ہوتے ہیں۔

پاکستانی ٹیلی وژن پر یہ ترک سیریلز دکھائے جانے کا سلسلہ گزشتہ سال شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان سیریلز نے ناظرین کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ مقامی ٹی وی چینلز کے لیے بھی یہ سیریلز بہت پُر کشش ہیں کیونکہ پاکستانی ڈرامے تیار کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے جبکہ یہ ترک سیریلز بہت سستے داموں مل جاتی ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ترکی کے ڈراموں میں اداکاروں اور اداکاراؤں نے زیادہ شاندار ملبوسات پہن رکھے ہوتے ہیں اور اُن کے سیٹ بی بہت بڑے بڑے اور شاہانہ ہوتے ہیں۔

ترکی میں ایک ڈرامہ سیریل کی شوٹنگ کا منظر
ترکی میں ایک ڈرامہ سیریل کی شوٹنگ کا منظرتصویر: MUSTAFA OZER/AFP/Getty Images

پاکستانی ٹیلی وژن کے معروف اداکار عابد علی آج کل ملک کے بندرگاہی شہر کراچی میں اپنی تازہ ترین ٹی وی سیریل ’میرے اپنے‘ کی ریکارڈنگ میں مصروف ہیں۔ ترک سیریلز کی یلغار پر بات کرتے ہوئے عابد علی نے خبر رساں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’’یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ترک ڈرامے بہت مہنگی پروڈکشنز ہیں، جن کی ہماری انڈسٹری متحمل نہیں ہو سکتی۔‘‘

اس سیریل کا سادہ سا سیٹ عابد علی کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ پوری قسط کراچی کے متمول طبقے والے علاقے میں کرایے پر لیے گئے ایک چھوٹے سے گھر کے ڈرائنگ روم اور پورچ میں فلمائی گئی ہے۔ ’میرے اپنے‘ میں ایک ایسی لڑکی کی مایوس کن زندگی کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس کے والدین انتقال کر جاتے ہیں۔

اس سیریل کی اداکارائیں اس اپارٹمنٹ کے گراؤنڈ فلور والے بیڈ روم کو اپنے میک اَپ روم کے طور پر استعمال کر رہی تھیں جبکہ اُس گھر میں رہنے والے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا جاتا تھا کیونکہ وہ شوٹنگ کے دوران شور کرتے تھے۔ اس ٹیم کے پاس ایک ہی کیمرہ تھا اور ایک ہی منظر کو مختلف زاویوں سے فلمانے کے لیے تین تین بار شوٹنگ کی جا رہی تھی۔

آج کل پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول ترک ٹی وی سیریل ’میرا سلطان‘ ہے۔ اس میں عثمانی دور کے طاقتور حکمران سلیمان اعظم کی داستان بیان کی گئی ہے چنانچہ اس کے سیٹ بھی شاندار ہیں اور اس میں اُسی دور سے مطابقت رکھنے والے خوبصورت ملبوسات بھی استعمال کیے گئے ہیں۔

پاکستان کے چوٹی کے تفریحی ٹی وی چینلز میں شمار ہونے والے چینل ’ہم ٹی وی‘ کے سینئر نائب صدر اطہر وقار عظیم نے بتایا کہ ’ترک ڈرامہ سیریلز کی کامیابی کے پیچھے بہت سی وجوہات کارفرما ہیں۔ پاکستانیوں کو تازگی، بہتر اور خوبصورت مقامات اور نئے نئے چہرے اپنی طرف راغب کرتے ہیں‘۔

اُنہوں نے بتایا کہ ایک پاکستانی ٹی وی اسٹیشن کو ترک ڈرامے کی ایک قسط نشر کرنے پر تقریباً ڈھائی ہزار ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں جبکہ کسی پاکستانی سیریل کی ایک قسط کی تیاری پر اس سے چار گنا لاگت آ جاتی ہے۔

خود ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن بھی اپنے وطن کی کچھ ٹی وی سیریلز کو ’قومی اَفدارکے منافی‘ قرار دیتے ہیں
خود ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن بھی اپنے وطن کی کچھ ٹی وی سیریلز کو ’قومی اَفدارکے منافی‘ قرار دیتے ہیںتصویر: AP

ترک ڈراموں کی مقبولیت پر سیاستدانوں کو بھی تشویش ہے۔ گزشتہ سال کے اواخر میں سینیٹ کی اطلاعات اور نشریات سے متعلق کمیٹی نے اس پریشانی کا اظہار کیا تھا کہ ترک ڈرامے نہ صرف پاکستان کی ٹی وی انڈسٹری کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ ان سے مقامی ثقافتی اَقدار کو بھی خطرہ ہے۔

’میرے اپنے‘ میں ساتھی اداکارہ جویریہ عباسی نے عابد علی کی تائید کرتے ہوئے کہا: ’’اگر کوئی پاکستانی اداکارہ مِنی اسکرٹ پہنے گی تو لوگ اس بات کو کبھی قبول نہیں کریں گے لیکن انہی ملبوسات میں ترک اداکارائیں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔‘‘

ترکی بھی مسلم اکثریت کا حامل ملک ہے لیکن پاکستان کے مقابلے میں زیاہ آزاد خیال ہے۔ تاہم خود ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن بھی ترک سیریلز سے خوش نہیں ہیں۔ گزشتہ برس ایردوآن نے ’میرا سلطان‘ ہی کے پروڈیوسرز پر الزام لگایا تھا کہ وہ ’قوم کی اَقدر کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں‘۔

پاکستانی سپریم کورٹ بھی مقامی ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے پروگراموں کو ’فحش‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔ عدالت نے ہمسایہ ملک بھارت کے اُن پروگراموں کا خاص طور پر حوالہ دیا تھا، جو ترک سیریلز سے بھی بہت پہلے پاکستان میں مقبول رہ چکے ہیں اور کئی ایک کے لیے تشویش کا باعث بن چکے ہیں۔ بالی وُڈ کی فلموں نے پاکستان کی مقامی فلمی صنعت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

ترک سیریلز کی یلغار کا سامنا صرف پاکستان ہی کو نہیں بلکہ مشرقِ وُسطیٰ میں بھی علماء نے انہیں غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے لوگوں کو چینل بدل لینے کے لیے کہا ہے۔ آکسفورڈ بزنس گروپ کے مطابق 2011ء میں ترکی نے بیس سے زیادہ ممالک کو ایک سو سے زائد ٹی وی سیریلز برآمد کرتے ہوئے ساٹھ ملین ڈالر سے زیادہ آمدنی حاصل کی۔