1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان کے لیڈر بیت اُللہ محسود ہلاک

7 اگست 2009

تحریک طالبان پاکستان کے لیڈر بیت اُللہ محسود ایک مبینہ ڈرون حملے میں اپنی اہلیہ اور بھائی سمیت دو دِن قبل ہلاک ہو گئے تھے۔ اُن کی تدفین بھی کردی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/J5Rp
بیت اللہ محسود کی ہلاکت کی خبر کو وسیع تناظر میں دیکھا جائےتو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان اور امریکہ کی یہ بہت بڑی کامیابی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

جنوبی وزیرستان کے علاقے میں بدھ کے روز مبینہ امریکی ڈرون حملے کے 24 گھنٹے سے بھی زائد عرصے بعد پاکستانی طالبان کے لیڈر بیت اللہ محسود کی ہلاکت کی تصدیق سامنے آ گئی ہے۔پاکستانی اور امریکی سیکیورٹی ذرائع کے علاوہ خود طالبان نے بھی اپنے لیڈر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ حکام گزشتہ روز سے اِس خبر سے پاکستان اور امریکہ کے خفیہ اداروں میں ہلچل پیدا تھی۔

پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے ٹھوس شواہد اکھٹے کئے جا رہے ہیں۔

ادھر امریکہ میں بھی اس خبر کی تصدیق کے سلسلے میں خفیہ ادارے خاصےمتحرک تھے۔ ایک سینئر امریکی افسر کا تو یہ کہنا تھا کہ محسود کی ہلاکت کی خبر 95 فیصد تک یقینی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ایک امریکی ٹیلی ویژن ادارے نے تو اپنے طور پر محسود کی موت کی خبر کی مشروط تصدیق بھی کردی تھی۔

یہ خبر عام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بدھ کے روز مبینہ امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود کے ایک بھائی اور ان کی اہلیہ کے ساتھ محسود کے متعدد باڈی گارڈ بھی مارے گئے تھے۔ پاکستانی اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایک اور شخص جو اس حملے میں مارا گیا، اور جس کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی، امکان یہ ہے کہ وہ شخص خود بیت اللہ محسود ہی تھا۔ ہلاک ہونے والی خاتون بیت اللہ محسود کی دوسری بیوی تھی۔ محسود کے سسر جو اس حملے میں بچ گئے ہیں، ان کے ایک عزیز نے بتایا کہ میزائیل حملے کے وقت پاکستانی طالبان کے لیڈر بیت اللہ محسود اپنے سسر کے گھر پر نہیں تھے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں کے اندر اور باہر سے ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی جنگجو کمانڈر مبینہ طور پر بیت اللہ محسود کی خالی ہوجانے والی مسند پر اپنے نئے قائد کے انتخاب کے لئے سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ تحریک طالبان کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس جو خفیہ مقام پر جاری ہے اب اُس کی تصدیق سامنے آ گسی ہے۔

بیت اللہ محسود کی ہلاکت کی خبر کو وسیع تناظر میں دیکھا جائےتو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان اور امریکہ کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ امریکہ کی جانب سے محسود کے سر کی قیمت پانچ ملین ڈالر مقرر تھی۔ پاکستانی حکومت نے بھی اپنی طرف سے محسود کے سر کے بدلے چھ لاکھ 15 ہزار ڈالر کے انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔

بیت اللہ محسود نے پاکستانی طالبان کی قیادت سن 2007 میں سنبھالی تھی جب عبداللہ محسود پاکستانی فوج کی ایک کارروائی کے دوران بلوچستان میں ہلاک کر دئے گئے تھے۔ عبداللہ محسود امریکی جیل گوانتانامو میں بھی قید رہے تھے۔ وہ اپنی ایک ٹانگ افغانستان میں ایک مسلح کارروائی کے دوران ضائع کروا بیٹھے تھے۔ بیت اللہ محسود نے بھی خاصا وقت افغانستان میں وہاں کے طالبان کے ساتھ گزارہ تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی ان پر لگایا گیا تھا۔ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں پر کئی حملوں کے ذمہ دار بھی ٹھہرائے گئے۔ بیت اللہ محسود نے شبہ ہونے پر اپنے قریبی ساتھیوں کو قتل کروا دینے میں بھی کبھی تامل نہ کیا۔ دو چار ہفتے قبل ان کے ایک قریبی ساتھی قاری زین الدین نے اپنا ایک علیحدہ دھڑا بنا لیا تھا۔ اس پر بیت اللہ محسود نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے اس سابقہ ساتھی اور نئے حریف کو بڑی آسانی سے اسی کے ایک محافظ کے ہاتھوں قتل کروا دیا۔

بیت اللہ محسود کی ہلاکت کی افواہیں ماضی میں بھی کئی مرتبہ گردش کرتی رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ اس کے علاوہ اب وہ ذیابیطس یا شوگر کا شکار بھی ہو چکے تھے۔ بیت اللہ محسود زندگی بھر ایک کمبل میں لپٹی ہوئی ذات کی طرح رہے۔ ان کے بارے میں مجموعی طور پر بہت کم مصدقہ اور حتمی معلومات منظر عام پر آ سکی ہیں۔

پشاور اور قبائلی علاقوں میں بے شمار منفی اور مثبت باتیں مختلف انداز میں ان کے حوالے سے گردش میں رہتی تھیں۔ لیکن ایک امر طے ہے کہ وہ حکومت دشمن قوتوں کے سرخیل تھے۔ انہوں نے کھلم کھلا پاکستانی حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کیا تھا۔ وہ پاکستان میں امن و سلامتی کو بگاڑنے اور خراب کرنے میں پیش پیش رہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں مولانا فضل اللہ کو بھی ان کی تھپکی ملتی رہتی تھی۔

رپورٹ : عابد حسین

ادارت : مقبول ملک