1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی جیلوں میں قید خواتین کے خوفناک حالات

صباحت خان
25 ستمبر 2020

جیلوں میں خواتین قیدی ملزم یا مجرم تو ہو سکتی ہیں لیکن انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جائے یہ کسی بھی ملک کے آئین و قانون میں شامل نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3izey
Symbolbild Pakistan Gefängnis
تصویر: picture alliance/dpa/S. Akber

خواتین قیدیوں کے انسانی حقوق کی بات کی جائے تو بنیادی حقوق میں صاف پانی، خوارک، بیت الخلا کی سہولت، علاج معالجہ، صاف بستر، قانونی معاونت، محفوظ ماحول شامل ہیں۔ اور اگر بچے خواتین کے ساتھ موجودہ ہیں تو ان کی بھی بنیادی ضروریات جیل کے اندر فراہم ہونی چاہیے۔ پاکستان کے جیلوں میں خواتین قیدیوں کی حالت زار ابتر ہونے  کے بارے میں جو معلومات سامنے آتی ہیں وہ کافی تکلیف دہ اور خوفناک ہے۔

جون 2016 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ملک کی مختلف جیلوں میں خواتین قیدیوں کے ساتھ رات کے وقت بدسلوکی کے واقعات پیش آتے ہیں، جو کہ جیل کے عملے کی ملی بھگت کے بغیر مکمن نہیں ہو سکتے۔ اجلاس میں تجویز دی گئی تھی کہ مردوں اور خواتین قیدیوں کی جیلیں فاصلے پر بنائی جائیں اور خواتین کی جیلوں میں عملے کے علاوہ خواتین سپرنٹنڈنٹ تعینات کی جائیں۔

حال ہی میں انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو جیلوں میں خواتین کی حالت زار کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس کے مطابق پاکستان میں کل تہتر ہزار دو سو بیالیس قیدیوں میں سے ایک ہزار ایک سو اکیس خواتین ہیں۔ ایک سو چونتیس خواتین قیدیوں کے بچے بھی ہیں، جن کی کل تعداد ایک سو پچانوے ہے۔ خواتین قیدیوں میں سے چھیالیس بزرگ جبکہ  دس نابالغ ہیں۔ خواتین قیدیوں کی سب سے کم تعداد تین  گلگت بلتستان میں ہیں جبکہ ملک کے صوبہ پنجاب میں سات سو ستائیس، سندھ میں دو سو پانچ ، خیبر پختونخوا میں ایک سو چھیاسٹھ جبکہ بلوچستان میں بیس خواتین قید ہیں۔ ان میں سے 66.7 فیصد کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔

DW Urdu Blogerin Sabahat Khan
صباحت خان، بلاگرتصویر: Privat

 یاد رہے کہ رواں برس مئی میں وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی جیلوں میں خواتین کی حالت زار کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی سربراہی میں تشکیل دی جانے والی اس کمیٹی نے چار ماہ بعد اپنی سفارشات وزیراعظم کو پیش کیں۔ رپورٹ میں مرتب کی گئی سفارشات کے مطابق زیر سماعت قیدیوں کے تناسب کو کم کرنے، خواتین قیدیوں کے لیے سزا کے متبادل اور غیر حتمی اقدامات تیار کرنے، خواتین جیلوں اور بیرکوں میں رہائش، تعلیم اور بحالی کے پروگراموں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے میں نے قیدی خواتین کے رائٹس پروٹیکشن کمیٹی کی سابق چئیر پرسن ایڈوکیٹ ہما جمیل بابر سے رابطہ کیا۔ جو حالات انہوں نے میرے سامنے بیان کیے، وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ یہ افسوس ناک بات ہے کہ قیدی خواتین اوران کے ساتھ موجود بچوں کے حقوق اور تحفظ کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اڈیالہ جیل میں جو خاتون بچوں کو پڑھاتی ہیں، وہ خود ایک قیدی مرد  کے ساتھ بچوں کے جنسی استحصال اور قتل میں سزا یافتہ ہیں۔ مجرمانہ ذہنیت  کی حامل خاتون بچوں کو تعلیم دیتی ہیں تو تعلیم حاصل کرنے والے بچوں پر کس قسم کے اخلاقی اثرات مرتب ہوتے ہو ں گے؟

یہ بھی پڑھیے:

’جرم ایک لمحے کا، سزا آخری سانس تک‘

افغانستان میں قبائلی سرداروں کے مکان خواتین کی جیلیں ہیں

 خواتین قیدیوں کے ساتھ ایسے بچے بھی ہیں، جنہوں نے کبھی باہر کی دنیا ہی نہیں دیکھی۔ بغیر کسی قصور کے وہ بھی اپنی ماؤں کے ساتھ سزا کاٹ رہے ہیں۔ جیلوں میں ایک دو این جی اوز بھی مختلف ہنر سیکھانے کے حوالے سے ٹریننگ دیتی ہیں مگر کچھ وقت سے یہ ٹریننگ بھی بند ہے۔ خواتین کو سرکاری وکیل فراہم ہوتے ہیں مگر خواتین قیدیوں کو کیس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے خواتین کیس اور وکیل کے کام سے مطمن نہیں ہیں یہاں تک کہ خواتین کو اپنے کیس نمبر اور جج کے بارے میں بھی علم نہیں ہوتا ہے۔

اڈیالہ جیل میں خواتین کے لیے بنیادی ضرویات کی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ ایک کمرے میں مختص تعداد سے دوگنی خواتین کو رکھا جاتا ہے، جن کے لیے ایک واش روم موجود ہوتا ہے اور صفائی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، جس کے باعث بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ خواتین کو پانی کی کمی کا سامنا اکثر رہتا ہے۔ گرمی میں بجلی اگر بند ہوئے جائے تو محدود جگہ کے باعث خواتین کے لیے سانس لینا مشکل ہوتا ہے۔ کچھ کمرے ایسے ہیں، جن میں دو چارپائیوں کے علاوہ پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں ہے، واش روم  کی جگہ موجود ہے لیکن بغیر کسی دیوار کے۔ ایسی خواتین بھی موجود ہیں، جو چار بچوں کے ساتھ ایک چارپائی پر گزارہ کرتی ہیں۔

حکومت اور عدالتیں اس مسئلے پر توجہ دیں تو خواتین قیدیوں کو قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے جیلوں میں ہی کمیٹی تشکیل دینی چایے تاکہ خواتین قیدی اپنے مقدمات سے متعلق معلومات حاصل کر سکیں۔ نو عمر خواتین قیدیوں کو جیل کے عملے اور دیگر قیدیوں سے برے رویے کا بھی اکثر سامنا رہتا ہے۔

 جیل میں خواتین کے ساتھ عملے کی جانب سے مناسب رویہ اختیار نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے وہ ذہنی مسائل کا شدید شکار رہتی ہیں۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ اور سوشل ویلفر کے ادارے خواتین قیدیوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں مگر عدالتی نظام اور حکومت کو بھی سنجیدہ اقدمات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی، خواتین اور بچوں کے مسائل پر تشدد کے خلاف بھر پور آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہے مگر یہ وہ طبقہ ہے، جس کے بارے میں ہمارے روایتی ذہنوں میں ایک ہی بات آتی ہے کہ جیلوں کے قیدی انسان نہیں ہیں، وہ انسانی بنیادی حقوق کا حق بھی نہیں رکھتے ہیں۔ واصخ رہے کہ ملک بھر میں خواتین قیدیوں کے لیے علیحدہ کوئی جیل موجود نہیں ہے۔ صرف کراچی، ملتان اور ہری پور میں خواتین قیدیوں کے لیے کیمپ جیلیں بنائی گئی ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں نوے سے زائد جیلیں ہیں، جن میں خواتین قیدیوں کے لیے بس الگ سے بیرکس موجود ہیں۔