1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تعلیمی اداروں میں نشے کا بڑھتا ہوا رجحان، والدین کیا کریں؟

20 فروری 2021

گزشتہ چند برسوں سے ایک موضوع تواتر کے ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر زیر بحث ہے کہ تعلیمی اداروں میں نشہ آور اشیاء کے استعمال میں خطرناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اعدادوشمار تشویش ناک صورت حال کو ظاہر کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3pdD8
Afghanistan Drogen Opium Drogensucht Gesellschaft
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

لیکن کیا کیجیے ہماری ازلی بے پروائی کا، جو ہر مسئلے کو حل کرنے میں آڑے آ جاتی ہے۔ ذمہ داران شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرواتے ہیں اور بات ختم۔ شاید ہمیں صورت حال کی نزاکت کا اندازہ ہی نہیں ہو رہا ہے۔ ملک کے ایک مایہ ناز تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم میری بھانجی چند روزہ قیام کی غرض سے ہمارے گھر آئیں۔ معاشرتی مسائل پر ایک ٹین ایجر سے بات کرتے ہوئے ذہن میں تھا کہ آنے والا وقت ان کا ہے۔ ان کی رائے سے آگاہی بھی ہونی چاہیے۔

 سماجی کارکن کے طور پر سرگرم اس بچی نے مختلف مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے انتہائی مایوسی کے عالم میں یہ انکشاف بھی کیا کہ اس کے تعلیمی ادارے میں طلباء و طالبات نشہ آور اشیاء کا استعمال کھلے عام کر رہے ہیں۔ مجھے یہ سن کر زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ لیکن تشویش ناک بات یہ تھی کہ اس کا کمسن ذہن اس حقیقت کو جان کر سخت انتشار کا شکار تھا۔

اکثر تعلیمی اداروں میں طلبا اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر نشہ آور اشیاء کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ڈرگز استعمال کرنے کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ اگر آپ منع کریں تو آپ کو دقیانوسی سمجھا جائے گا۔ اکثر نشے کے عادی بچے صرف اس لیے شکار ہوتے ہیں کیونکہ باقی دوست ایسا کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ نشہ تقسیم کرنے والی مافیا تعلیمی اداروں میں نشہ بیچنے کے لیے اسی ادارے کے بچوں کا استعمال کرتے ہیں۔

DW Urdu Blogerin Tahira Syed
طاہرہ سید، بلاگرتصویر: Privat

سن 2015 میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منشیات کو بتایا گیا کہ پاکستان میں کل 70 لاکھ سے زائد افراد نشہ آور اشیاء کے عادی ہیں۔ نوجوان چونکہ پاکستان کی کل آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں، اس لیے نشے کے عادی افراد میں بھی ان کی شرح زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 44 ٹن ہیروئن استعمال کی جاتی ہے، جو امریکا میں استعمال ہونے والی ہیروئن سے تین گناہ زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

 تقریباً آٹھ ملین پاکستانی مرد اور خواتین منشیات کے عادی

اسلام آباد: نشہ آور ادویات کا استعمال، طلبہ کے طبی معائنے

اقوام متحدہ کے مطابق چالیس لاکھ افراد بھنگ کے نشے میں مبتلا ہیں جبکہ 90 لاکھ کے قریب ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ 700افراد نشے کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جو دہشت گردی سے مرنے والے افراد کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

نشے کے عادی نوجوانوں میں لڑکیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی  ہے، جو ایک انتہائی تشویش ناک رجحان ہے۔ صرف چند مایہ ناز تعلیمی ادارے ہیں، جہاں نشہ آور اشیاء کی روک تھام کی گئی ہے۔ اس سے بڑے دکھ کی بات کیا ہو گی کہ وہ ادارے، جنہیں ہماری نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا، وہ نشے کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ جو شرم یا جھجک بچوں میں ہو سکتی تھی، اساتذہ ان کے سامنے نشہ کر کے وہ بھی ختم کر دیتے ہیں۔

نشہ آور اشیاء کا نئی نسل میں بڑھتا ہوا استعمال مالی لحاظ سے بہتر طبقے میں زیادہ ہے۔ ایسے گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو ماں باپ ضرورت سے زیادہ آسائشیں دے کر انہیں اتنا آرام پسند بنا دیتے ہیں کہ یہ زندگی کی تلخیاں برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے اور جلد ہی ہمت ہار دیتے ہیں اور خود کو نشے میں گم کر کے اس مشکل سے فرار حاصل کر لیتے ہیں۔

 اس کے علاوہ نشہ کرنا ان کے سرکل میں "نیو کول" تصور کیا جاتا ہے۔ پیسے کی فراوانی، والدین کی قربت اور نگرانی سے محروم یہ بچے نہ صرف خود نشے کا استعمال کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو فخر سے اس کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔کیونکہ یہ بچے اپنے والدین کو بھی کسی نہ کسی قسم کا نشہ کرتے دیکھتے ہیں۔ نئی نسل میں تیزی سے فروغ پانے والا نشہ کرسٹل میتھ ایک تباہ کن ہتھیار ہے۔ جو ہمارے بچوں کو تباہی سے دوچار کر رہا ہے۔

ایشیا کی سب سے بڑی چرس منڈی

اسی طرح ہمارے غریب طبقے میں تمباکو نوشی، پان، چھالیہ، گٹکا وغیرہ کا استعمال بھی ایک عام سی بات ہے۔ اسے بھی کوئی برائی تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی یہ مانتا ہے کہ اس کے بعد ہیروئن اور آئس جیسے خطرناک اور مہلک نشے کی لت بھی لگ سکتی ہے۔ اس طبقہ کے پاس تو علاج کے ذرائع بھی موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اس سے بچنے کی آگاہی ہوتی ہے۔

آپ معاشرے کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، اہم بات یہ تشخیص کرنا ہے کہ آپ کی اولاد کسی نشے کا شکار ہے یا نہیں۔ یہاں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ والدین اس خوش فہمی میں ہی رہ جاتے ہیں کہ ان کی اولاد نشہ کر ہی نہیں سکتی۔ اگر آپ کو شک ہے کہ بچہ کسی طرح کے نشے کا عادی ہے تو اس کا اندازہ اس کی حرکات و سکنات سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی چند علامات میں آنکھوں کا سرخ رہنا، وزن کا بہت زیادہ بڑھنا یا گر جانا، بھوک کا نہ لگنا، ذہنی طور پر سن اور رویے میں شدید بدلاؤ، زیادہ پیسوں کا مطالبہ کرنا، زبان میں لکنت اور روزمرہ کے کاموں کو سرانجام دینے میں دشواری کا آنا شامل ہیں۔

تشخیص کے بعد اگلا مرحلہ اس موضوع پر بات کرنے کا ہے۔ آج کل یہ سوچ بہت عام ہے کہ والدین کو بچوں کا دوست بن کر رہنا چاہیے۔ لیکن اکثر والدین اس بات کا درست مفہوم نہیں سمجھ پاتے۔ والدین، جنہیں اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہیے اور ان پر اختیار رکھنا چاہیے کہ انہیں نظم و ضبط سکھا سکیں، الٹا بچوں سے ڈرتے ہیں۔ بعض اوقات مائیں بھی بچوں کی اس عادت پر پردہ ڈالتی ہیں کہ کہیں لوگ ان سے نفرت نہ کریں، باپ سختی نہ کرے۔ نشے کا عادی ہونا ایک بیماری ہے، جس کا علاج کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اس موضوع پر بات ہی نہیں ہو گی تو ایک دن یہ عادت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔

پھر علاج کا مرحلہ آتا ہے۔ لیکن یہ مرحلہ بھی گھر کے افراد کی شمولیت کے بغیر نامکمل ہے۔ احتیاط چونکہ علاج سے بہتر ہے، اس لئے والدین کی حیثیت سے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کے گر بھی سکھائیں۔ صرف اچھا تعلیمی نتیجہ لانا کامیابی کی ضمانت نہیں۔ بچہ جس عمر میں بھی ہو، اسے کوئی ذمہ داری دیں تاکہ وہ اس کی اہمیت کو سمجھے اور اس کا عادی بنے۔

 انہیں سکھائیں کہ اپنے جذبات کو کیسے قابو کرنا چاہیے اور مختلف رشتوں کے ساتھ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔ زندگی میں کسی مقصد کا تعین بہت ضروری ہے۔ پھر اس مقصد کے حصول کے لیے محنت درکار ہوتی ہے۔ وہ بچے جو اپنی زندگی میں روزانہ اپنے اندر مثبت تبدیلی کے لئے محنت کرتے ہیں وہ کبھی نشہ آور اشیاء کا رخ نہیں کرتے۔

رہ گئے تعلیمی ادارے اور اس میں نام نہاد استاد تو یہ  ''علم بڑی دولت ہے‘‘ کو کاروباری فقرہ سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہیں۔ جب ایک انسان کے لیے کوئی برائی برائی ہی نہ رہے تو آپ اسے روکنے پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے یہاں والدین کو ہی نظر رکھنا ہو گی۔ جبکہ عموماً والدین دنیا کے وہ آخری فرد ہوتے ہیں، جنہیں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ بچے نشے کا شکار ہو چکے ہیں۔

 یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ نشے کا عادی انسان نشے کے بغیر شدید جسمانی تکلیف کا شکار ہوتا ہے، جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس لیے ان سے نفرت کے بجائے ہمیشہ عزت اور ہمدردی سے پیش آئیں۔ علاج کے بعد ایک بھرپور زندگی گزارنا ناممکن نہیں لیکن محنت طلب ضرور ہے۔