1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی باغی زندہ گرفتار کر لیا، بھارت

امتیاز احمد27 اگست 2015

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ایک جھڑپ کے نتیجے میں چار مشتبہ باغی ہلاک ہو گئے ہیں۔ پولیس نے بارہ گھنٹے طویل جاری رہنے والی اس جھڑپ کے دوران ایک مبینہ پاکستانی باغی کو زندہ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GN1f
Kaschmir Grenzstreitigkeiten Indien Pakistan Verletzung Waffenruhe
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Mughal

بھارتی حکام نے الزام عائد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایک پانچ رکنی گروپ نے پاکستانی سائیڈ سے بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس کے بعد ان کی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ بارہ گھنٹے طویل لڑائی جاری رہی۔ بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع بارہ مولا میں ہونے والی جھڑپ کے دوران چار مشتبہ عسکریت پسند مارے گئے ہیں جبکہ ایک مبینہ پاکستانی جنگجو کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے اور ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھارتی فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ گرفتار شدہ شخص پاکستانی شہری ہے تاہم آزاد ذرائع سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق یہ باغی بدھ کے روز سرحد پار کرتے ہوئے ان کے زیر کنٹرول کشمیر میں داخل ہوئے۔

آج بھارت کے دفاعی ترجمان ایس ڈی گوسوامی نے کہا کہ ایک باغی کو بدھ ہی کے روز ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ باقی تین نے ایک غار میں پناہ لے لی تھی۔ بھارت کے جونیئر وزیر داخلہ کرن رججو کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پانچویں باغی کو پکڑ لیا گیا تھا اور اس سے تفتیش جاری ہے۔

بھارتی حکام نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بائیس سالہ پاکستانی لڑکے کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔ بھارتی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ انڈیا کے مطابق مشتبہ باغی کا نام سجاد احمد ہے اور اس کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے جبکہ اسے اودھم پور سے گرفتار کیا گیا۔ بھارتی فورسز کا کہنا ہے کہ انہوں نے رواں ماہ دو پاکستانی باغی پکڑے ہیں، جو کہ ’بہت بڑی‘ کامیابی ہے کیونکہ کسی کو زندہ پکڑنا انتہائی مشکل کام ہے۔

دوسری جانب پاکستانی کی طرف سے ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ بھارت ماضی میں بھی ایسے الزامات عائد کرتا آیا ہے، جس کی پاکستان تردید کرتا ہے۔ پاکستانی حکام بھارت پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ افغانستان کے راستے بلوچستان میں مداخلت جاری رکھے ہوئے، جس کی بھارتی حکام تردید کرتے ہیں۔