پاکستان کے قبائلی علاقے میں کوئی خاتون انتخاب جیت سکتی ہے؟
پاکستان کے قبائلی علاقے میں خواتین کو ان کے سرپرست مرد ہی بتاتے ہیں کہ کس کو ووٹ دینا ہے؟ اس قدامت پسند علاقے میں صوبائی اسمبلی کی امیدوار ناہید آفریدی گھر گھر جا کر اپنے لیے ووٹ مانگ رہی ہیں۔
کمیونٹی کے قریب
ناہید آفریدی کا انتخابی دفترخیبر ڈسٹرک کے جمرود نامی علاقے میں واقع ہے۔ اسی دفتر سے وہ تمام دیہات میں ہونے والے جلسوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ وہ گھر گھر جا کر اپنے لیے ووٹ مانگنے کے ساتھ ساتھ قبائلی عمائدین سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں بارہ مرد امیدوار بھی کھڑے ہیں۔ ووٹنگ بیس جولائی کو ہو گی۔
نوجوان خواتین کے لیے ایک مثال
ایک چھوٹی سی لڑکی نے ناہید آفریدی کا اشتہار اپنے سینے پر چسپاں کر رکھا ہے۔ ناہید کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک پدرانہ معاشرے میں الیکشن مہم چلانا مشکل کام ہے لیکن وہ نوجوان خواتین کے لیے اعتماد، جرات اور قیادت کی ایک مثال قائم کرنا چاہتی ہیں۔ مقامی خواتین کو تو ان کی ریلیوں میں شریک ہونے کی اجازت نہیں ہے لیکن بچے ان کے ساتھ ساتھ ہیں۔
قبائلی عمائدین سے ملنے والی پہلی خاتون
چالیس سالہ ناہید قبائلی عمائدین کو ان کے حجروں میں جا کر مل رہی ہیں۔ حجرہ ایک روایتی قبائلی جگہ ہوتی ہے، جہاں مرد جمع ہو کر مختلف مسائل پر گفتگو اور بحث کرتے ہیں۔ اس علاقے میں حجرے میں عمائدین سے ملاقات کرنے والی وہ پہلی خاتون ہیں۔ عمومی طور پر خواتین کو حجرے میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
مقامی لوگوں کے مسائل
ناہید آفریدی کے اردگرد مقامی دکاندار جمع ہیں اور وہ اپنی انتخابی تقریر میں یہ بتا رہی ہیں کہ وہ کیوں علاقائی اسمبلی میں جانا چاہتی ہیں۔ ناہید کے مطابق ان کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ گاؤں گاؤں جا کر براہ راست سب سے بات کریں اور انہیں ووٹ دینے کے لیے قائل کریں۔
ہر ایک ووٹ اہم ہے
چھوٹے بچے ناہید آفریدی کی انتخابی مہم کے سلسلے میں کاروں پر اسٹیکر چسپاں کر رہے ہیں۔ بچے ناہید آفریدی کے انتخابی بینر اور اسٹیکر گلیوں، گھروں اور چوراہوں میں بھی لگا رہے ہیں۔ جہاں دیگر خواتین کو ان کے ساتھ تصاویر بنوانے کی اجازت نہیں ہے، وہاں بچے شوق سے ان کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔
ایک نئی آواز
ناہید آفریدی کے مطابق ان کی انتخابی مہم کا مقصد صرف مقابلہ بازی نہیں ہے بلکہ وہ صوبائی اسمبلی میں پہنچ کر علاقے کی خواتین کے مسائل کی نمائندگی کرنا چاہتی ہیں۔ ایک مقامی سوشل ورکر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مقامی مرد نہ تو خواتین کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور نہ ہی یہ پسند کرتے ہیں کہ خواتین اپنے حق کی بات کریں۔
قبائلی علاقے کے لیے ایک مثال؟
ناہید آفریدی کی انتخابی مہم علاقے کی ایسی خواتین کے لیے ایک پیغام ہے، جنہیں نہ تو اسکول جانے دیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں اپنی مرضی سے ووٹ دینے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہاں ایک نوجوان ان کے ساتھ سیلفی بنا رہا ہے۔ اس نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کی خواتین سے بھی کہے گا کہ وہ ناہید آفریدی کو ہی ووٹ دیں۔