1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نریندر مودی کا پاکستانی سیلاب متاثرین سے اظہار یکجہتی

صلاح الدین زین
30 اگست 2022

وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان میں سیلاب کی صورت حال پر دکھ و درد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ حالات جلد ہی بہتر ہو جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق بھارت پاکستان کو امداد فراہم کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4GCkm
Narendra Modi beim G7 Gipfel in Elmau
تصویر: Frank Hoermann/Sven Simon/IMAGO

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان میں سیلاب کی صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔ سیلاب کے سبب پاکستان میں اب تک ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

 اس صورتحال پر اپنے پہلے بیان میں مودی نے کہا کہ وہ ایسی تباہی کو دیکھ کر غم زدہ ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ملک میں جلد ہی "معمول کی زندگی" بحال ہو جائے گی۔

مودی نے کیا کہا؟

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا، "پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کو دیکھ کر دکھ ہوا۔ ہم متاثرین کے خاندانوں، زخمیوں اور اس قدرتی آفت سے متاثر ہونے والے تمام لوگوں سے  اپنی دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حالات کی جلد بحالی کی امید بھی کرتے ہیں۔"

بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق پاکستان کو انسانی امداد فراہم کرنے کے امکان پر بھی بھارتی حکومت میں اعلیٰ سطحی بات چیت جاری ہے۔ خبروں کے مطابق اس سلسلے میں ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، تاہم نئی دہلی میں حکام اس حوالے سے مختلف آپشنز پر بات کر رہے ہیں۔

اگر اس موقع پر پاکستان کو امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا جا تا ہے، تو سن 2014 میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ بھارت قدرتی آفت کے باعث پاکستان کو امداد فراہم کرے گا۔

ماضی میں منموہن سنگھ کی حکومت نے سن 2010 میں سیلاب کے بعد پاکستان کو انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کی تھی، جبکہ سن 2005 میں آنے والے زلزلے کے بعد بھی بھارت نے اسلام آباد کو مدد فراہم  کی تھی۔

پیر کے روز ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ٹویٹ پیغام سے عین قبل اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے، پاکستانی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ سیلاب سے ملک بھر کی فصلوں کی تباہ کاری کے بعد لوگوں کی سہولت کے لیے حکومت پاکستان بھارت سے سبزیاں اور دیگر اشیا خوردنی درآمد کرنے پر غور کر سکتی ہے۔

Pakistan Überschwemmungen in weiten Teilen des Landes
سیلاب کے سبب پاکستان میں اب تک ایک ہزار سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images

نئی دہلی کی جانب سے سن 2019  میں اپنے زیر کنٹرول کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کر دیا گیا تھا، جس کے بعد پاک بھارت تعلقات ایک نئی نچلی سطح پر آ گئے تھے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین تلخی بڑھی اور اسلام آباد نے سفارتی تعلقات کو محدود بنانے کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تجارت معطل کر دی تھی جبکہ سرحد پار آمد ورفت بھی روک دی گئی تھی۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں اقتصادی راہداری: بھارت سیخ پا

رواں برس اپریل میں شہباز شریف نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ پاکستان "علاقائی امن اور سلامتی" کے لیے پر عزم ہے اور بھارت کے ساتھ بھی "پرامن اور تعاون پر مبنی" تعلقات چاہتا ہے۔

اس موقع پر دونوں ملکوں کے وزراء اعظم نے مکتوب کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ بھی کیا تھا، اس وقت شہباز شریف نے مودی سے کہا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے آگے آئیں تاکہ دونوں ممالک غربت اور بے روزگاری سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کر سکیں۔

ادھر مودی نے شریف کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بھارت خطے میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے، جو دہشت گردی سے پاک ہو۔

کشمیری تاجروں کا پاکستان کے ساتھ سرحد پار تجارت دوبارہ کھولنے کا مطالبہ

 پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے ہی بھارتی میڈیا میں اس طرح کی خبریں گشت کرتی رہی ہیں کہ دونوں ملکوں میں معمول کے تعلقات دوبارہ بحال ہو سکتے ہیں، جو کشمیر سے متعلق بھارتی اقدام کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔

بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں ایک عام تاثر یہ رہا ہے کہ پاکستان کا شریف خاندان ہمیشہ سے ہی بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کا حامی رہا ہے۔ شہباز شریف نے آخری بار بھارت کا دورہ دسمبر 2013 میں کیا تھا اور اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور وزیر تجارت آنند شرما سے بھی ملاقات کی تھی۔

تاہم اس برس وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی شہباز شریف نے یہ بھی کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں ہے۔

کشمیر: خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ، تین سال میں کیا کچھ بدلا