1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے آن لائن مدارس، منافع بخش کاروبار

29 اکتوبر 2016

حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں ہزاروں ایسے آن لائن مدارس قائم ہوئے ہیں، جو سکائپ جیسی ویڈیو سروسز استعمال کرتے ہوئے امریکا، یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں مقیم مسلمان بچوں کو اسلامی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2Rs7h
Symbolbild - Koran
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh

رات کے اس پہر پاکستانی شہر راولپنڈی کے چاندنی چوک اسکوائر میں ہر طرف خاموشی ہے لیکن کبھی کبھار کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل گزرتی ہے تو اس کی آواز خاموشی کو توڑ دیتی ہے۔ دکاندار اپنی دکانیں بند کر چکے ہیں لیکن کچھ نوجوانوں کی ملازمت کا وقت رات گئے اب شروع ہو رہا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں، جو اس مدرسے یا ادارے کے لیے ملازمت کرتے ہیں، جو بیرون ملک مقیم پاکستانی خاندانوں کے بچوں کو اسکائپ کے ذریعے اسلامی یا قرآنی تعلیم فراہم کرتا ہے۔

ایک کثیر المنزلہ عمارت میں قائم اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے یاسر ہارون کا کہنا تھا، ’’یہ میرے لیے آمدنی کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے اور اسلام کی اشاعت کا ایک مقدس فریضہ بھی۔‘‘ یاسر ہارون گزشتہ تین برسوں سے اپنا آن لائن مدرسہ چلا رہے ہیں اور ان کے طالب علم امریکا، برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ میں رہائش پذیر ہیں۔

یاسر ہارون نے اس مقصد کے لیے سات اساتذہ کو ملازمت پر رکھا ہوا ہے اور یہ تمام اساتذہ پاکستانی مدرسوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ یہ بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ترجمہ اور تشریح بھی پڑھاتے ہیں۔ ہارون کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مغرب میں رہنے والے لوگوں کو اسلام میں دلچسپی ہے۔ کئی دیگر اساتذہ بھی اسی طرز پر بیرون ملک مقیم بچوں کو قرآن پڑھاتے ہیں۔ روزانہ کی کلاس اسکائپ پر ہوتی ہے۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘

Beginn des Ramadans Flash-Galerie
تصویر: dapd

بیرون ملک مقیم خاندانوں کو اسلامی تعلیم فراہم کرنے والوں کو سرچ انجن کے ذریعے تلاش کیا جا سکتا ہے یا پھر تعلقات کے ذریعے نئے طالب علم تلاش کیے جاتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم،  جن خاندانوں کے بچے اس طرح اسلامی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، زیادہ تر ان خاندانوں کا تعلق پاکستان، بھارت یا پھر بنگلہ دیش سے ہوتا ہے۔ روزانہ نصف گھنٹے کا درس یا تو بچے اکیلے یا پھر چھوٹے گروپوں کی شکل میں حاصل کرتے ہیں۔

اس وقت ایسے کوئی بھی واضح اعداد و شمار نہیں ہیں کہ ایسے آن لائن مدرسوں کی تعداد کتنی ہے؟ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے سربراہ عامر طاسین کہتے ہیں، ’’ایسے مدرسوں کی نگرانی نہیں کی جا سکتی۔ ہم ابھی تک حقیقی مدرسوں کی نگرانی کا نظام نہیں قائم کر سکے، آن لائن کے بارے میں تو بھول ہی جائیے۔ اس کے لیے صرف ایک کمپیوٹر اور اسکائپ آئی ڈی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

اسی شہر میں ایک دوسرا مدرسہ چلانے والےعمران جمشید کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں ایسے مدرسوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔‘‘ ان کے مطابق ایسے آن لائن مدارس صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی چلائے جا رہے ہیں۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق بیرون ملک بچوں کو پڑھانا ایک منافع بخش کاروبار بھی ہے۔ پاکستان میں آئمہ یا مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہیں جبکہ بیرون ملک صرف ایک بچے کو پڑھانے سے پورے مہینے کی تنخواہ نکل آتی ہے۔