1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان کی مدر ٹریسا‘

امتیاز احمد3 جولائی 2015

ہر صبح اکیاسی سالہ روتھ فاؤ کراچی کے سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل میں کھڑی، بند آنکھوں اور جھکے سر کے ساتھ اپنا دایاں ہاتھ دل پہ رکھے دعا مانگ رہی ہوتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Fs4x
Ruth Pfau Deutsche Ärztin bekämpft Lepra in Pakistan
تصویر: picture-alliance/dpa/J.H. Meyer

’پاکستانی مدر ٹریسا‘ کے نام سے مشہور اس راہبہ کے لمبے دن کا آغاز روزانہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ روتھ فاؤ نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے پاکستان کے غریب ترین اور جذام سے متاثرہ افراد کی خدمت میں مصروف ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ گذشتہ تین برسوں میں وہاں بم دھماکوں کے نتیجے میں چار ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ کراچی میں پر تشدد کارروائیاں اور اغوا برائے تاوان کے واقعات معمول کا حصہ بن چکے ہیں لیکن چھڑی کی مدد سے چلنے والی اس راہبہ کا کہنا ہے کہ کوئی بھی مشکل ان کو غریب لوگوں کی خدمت کرنے سے نہیں روک سکتی۔

اپنے سفید بالوں پر دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں: ’’مجھے کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ میں نے لوگوں کی خدمت کے لئے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں بھی کام کیا ہے، جہاں زیادہ تر لوگ مجھے میرے کام کی وجہ سے جانتے ہیں اور کبھی بھی کسی نے میرے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘ دوسری عالمی جنگ کی دہشت کے بعد ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیں گی۔ انہوں نے ڈاکٹر بنے کے بعد Daughters of the Heart of Mary نامی کلیسائی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ مسیحی تنظیم فرانسیسی انقلاب کے دوران قائم کی گئی تھی۔ ڈاکٹر فاؤ کا پاکستان جانا اور وہاں فلاحی کام کرنا محض ایک اتفاق تھا۔

Ruth Pfau Deutsche Ärztin bekämpft Lepra in Pakistan
تصویر: picture-alliance/dpa/J.H. Meyer

1960ء میں انہیں بھارت میں کام کرنے کے لئے جانا تھا لیکن ویزا کے مسائل کی وجہ سے انہیں کراچی میں پڑاؤ کرنا پڑا۔ اسی دوران انہیں جذام سے متاثرہ افراد کی ایک کالونی میں جانے کا موقع ملا۔ جذام کے مریضوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گی اور ایسے مریضوں کی مدد کریں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی حالت قابل رحم تھی۔ وہاں کے باتھ روم گندگی سے بھرے پڑے تھے اور مریضوں کے جسموں پر جوئیں رینگ رہی تھیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ چوہے ان کے جسموں کو کاٹ رہے ہوتے تھے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ لوگ ابھی تک پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں اور جانوروں کی طرح رینگتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی قسمت پر مطمئن تھے لیکن یہ ان کی قسمت نہیں تھی۔ وہ اس سے بہت اچھی اور خوش زندگی گزار سکتے تھے۔‘‘

اس کے بعد ڈاکٹر روتھ فاؤ کا قائم کردہ کلینک جلد ہی جذام سے متاثرہ افراد کے لیے قائم دو منزلہ ہسپتال میں تبدیل ہو گیا اور پاکستان بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔ ان کے قائم کیے گئے ہسپتال میں نہ صرف ڈاکٹروں کو تربیت دی گئی بلکہ ہزاروں مریضوں کا علاج بھی کیا گیا۔ ان کی انہی کاوشوں سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے 1968ء میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ایک قومی پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔

جرمن شہر لائپزگ میں پیدا ہونے والی روتھ فاؤ اس وقت 17 برس کی تھیں، جب انہوں نے مشرقی جرمنی سے سرحد پار کر کے مغربی جرمنی آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی کی مغربی جرمن ریاست میں داخلے کے لیے وہ مسلسل دو دن اور دو راتیں چلتی رہی تھیں۔ خوشحال زندگی گزارنےکے لئے اتنی مشکلات کا سامنا کرنے والی روتھ فاؤ آج بھی پاکستانیوں کی مدد میں مصروف ہیں۔