1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی بھارت، افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی: ایک جائزہ

شکور رحیم، اسلام آباد20 اگست 2015

پاکستان کی پڑوسی ممالک بھارت اور افغانستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی اور سفارتی تعلقات میں تناؤ کو نہ صرف ان پڑوسی ممالک بلکہ پورے جنوبی ایشیائی خطے میں امن و امان کے لیے نقصان دہ قرار دیا جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GJ7I
کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب گشت کرتے بھارتی فوجیتصویر: picture-alliance/AP Photo/Channi Anand

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق بھارت نے گزشتہ دو ماہ کے دوران لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کی 70 مرتبہ خلاف ورزی کی۔ دونوں ممالک کے درمیان اس کشیدگی کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ایک ہفتے کے دوران پاکستانی دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو احتجاجاﹰ تین مرتبہ طلب کیا جبکہ اسی دوران بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو دو مرتبہ دفتر خارجہ میں طلب کیا۔

دوسری جانب اسی دوران اسلام آباد اورکابل کی حکومتوں نے سرحدی کشیدگی اور دو طرفہ الزامات کے خلاف احتجاج کے لیے ایک دوسرے کے سفیروں کو اپنے اپنے دفتر خارجہ میں طلب کیا۔ بھارت اور افغانستان کے حکام سرحدی کشیدگی کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ سفارتی آداب کے مطابق سفیر کی طلبی انتہائی ناگزیرحالات میں کی جاتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی اس کے دو اہم پڑوسی ملکوں کے ساتھ حالیہ سفارتی کشید گی کے بارے میں کہا، ’’یہ کوئی اچھی بات نہیں سمجھی جاتی کہ ایک دوسرے کے سفیروں کو بات بے بات طلب کیاجائے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جب سے پاکستان نے اندرون ملک دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا ہے، تو ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغانستان کی طرف سے سرحد پر کوئی نہ کوئی مسئلہ چل رہا ہے۔ پاکستان جب ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کو بلانے کی بات کرتا ہے، تو بھارت ایسا کرنے سے ہچکچاتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کبھی مختصر اور کبھی طویل وقفوں کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ایک دوسرے پر بلا اشتعال گولہ باری کرنے کے الزامات بھی لگتے ہیں لیکن افغانستان کے ساتھ سرحد پر کشیدگی کا معاملہ گزشتہ چند سالوں میں شروع ہوا۔

دفاعی تجزیہ کار ائیر مارشل (ر) مسعود اختر نے پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر حالیہ کشیدگی کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال اس پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جب عالمی قوتیں افغانستان میں امن کے لیے کوشاں ہیں اور اس کے لیے انہیں معلوم ہے کہ اس کا مقصد خطے کو مستحکم رکھنا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں افغانستان میں قیام امن کے لیے جو مفاہمت کا سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ بھی اب خطرے سے دوچار ہے۔ عالمی برادری کو دیکھنا ہو گا ان وجوہات کو، جن کی وجہ سے ان پڑوسی ملکوں کے درمیان صورتحال بگڑ سکتی ہے۔‘‘

Afghanistan Sicherheitstraining Polizei in Herat
افغان بارڈر پولیس کے اہلکار جن کی حالیہ کچھ عرصے میں سرحدی علاقے میں پاکستانی دستوں کے ساتھ کئی مرتبہ جھڑپیں ہو چکی ہیںتصویر: Aref Karimi/AFP/Getty Images

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی افغانستان اور بھارت کے ساتھ کشیدگی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن ان میں بیک وقت جو تیزی آئی ہے، اسے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ امن مخالف قوتوں کے ارادوں کو سمجھیں تاکہ صورتحال کو خراب تر ہونے سے بچایا جا سکے۔

پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اسی دشمن کا ہاتھ ہے جو سرحد کی دوسری طرف سے گولہ باری کر کے عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

گزشتہ روز منڈی بہاؤالدین میں پنجاب رینجرز کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ یہ گولہ باری ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب آئندہ ہفتے دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے مابین ملاقات ہونے والی ہے۔

دریں اثناء آج جمعرات کے روز پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے حکام کے درمیان ملاقات میں کشمیر سمیت تمام امور پر گفتگو کی جائے گی۔ ترجمان کے مطابق نئی دہلی میں ہونے والے مذاکرات میں سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری بھی شرکت کریں گے۔ قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو مشترکہ مسائل کا سامنا ہے، جنہیں بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔