1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے: جنرل بپن راوت

جاوید اختر، نئی دہلی
16 جنوری 2020

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کی اگلے ہفتے ہونے والی انتہائی اہم میٹنگ سے قبل اعلیٰ بھارتی جنرل نےکہا ہے کہ دہشت گردی کی مبینہ اعانت کے تناظر میں پاکستان کو بلیک لسٹ کردیا جائے۔

https://p.dw.com/p/3WIO2
Indien Armee Bipin Rawat
تصویر: Imago/ZUMA Press

بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کا مزید کہنا تھا کہ اگر بلیک لسٹ کیے جانے کے باوجود پاکستان اپنی کارروائیوں سے باز نہیں آتا ہے تو اس کے خلاف مزید سخت اقدامات کیے جانا چاہئیں۔

جنرل راوت نے بھارتی وزارت خارجہ کے ذریعہ دہلی میں منعقدہ سالانہ اسٹریٹیجک میٹنگ ''رائے سینا ڈائیلاگ"سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”جو ملک بھی دہشت گردی کی اعانت کرتا ہے اس کے خلاف اس طرح کی کارروائی کی جانی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے ایسے ممالک کو بلیک لسٹ کیا جانا ایک اچھا قدم ہوگا۔ اس کے بعد اس ملک کو سفارتی طور پر الگ تھلگ کردیا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر بلیک لسٹ کرنے کے باوجود مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوں تواس ملک کے خلاف مزید سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تاہم”سخت اقدامات"کی وضاحت نہیں کی۔

جنرل منوج مکند ناروانے بھارتی فوج کے نئے سربراہ

جنرل بپن راوت بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف نامزد

خیال رہے کہ دہشت گردی کی مالی اعانت پر نگاہ رکھنے والے عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف کا ایک اہم اجلاس آئندہ 21سے 24جنوری کے درمیان بیجنگ میں ہونے والا ہے۔اس میٹنگ میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا اور پاکستان کو اپنے ان اقدامات کی وضاحت اور دفاع کا موقع بھی دیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ ایف اے ٹی ایف کے مقررہ پیمانوں پر پورا اترنے میں ناکام رہا تو اسے بلیک لسٹ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان فی الحال گرے لسٹ میں ہے اور گرے لسٹ سے باہر نکلنے کی کوشش کے تحت اس نے دہشت گردی کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات حال ہی میں ایف اے ٹی ایف کو روانہ کی تھیں۔

بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا، ''ہمیں اگر یہ لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلا ف جنگ ختم ہونے والی ہے تو ہم غلطی پر ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہو رہی ہے۔ یہ آئندہ بھی جاری رہے گا اور ہمیں اس کے ساتھ ہی رہنا سیکھنا ہوگا۔ اگر ہم دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جس طرح امریکا نے نائن الیون حملے کے بعد شروع کیا تھا۔ اس نے دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر جنگ چھیڑ دی تھی۔ ایسا کرنے کے لیے آپ کو دہشت گردوں کوالگ تھلگ کرنا ہوگا۔ جو بھی دہشت گردی کی اعانت کر رہا ہے اسے روکنا ہوگا۔‘‘

جنرل راوت کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ کبھی بھی دوست نہیں ہوسکتے جو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شامل بھی ہوں اور دہشت گردی کی اعانت بھی کر رہے ہوں۔

اس سوال کے جواب میں کہ شدت پسندی پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے جنرل راوت کا کہنا تھا،”شدت پسندی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے کشمیر میں شدت پسندی کو ابھرتے دیکھا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی شدت پسند ہوتے جارہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کو شدت پسند بنایا گیا ہے۔ بارہ سال تک کے بچوں کو بھی شدت پسندی کا سبق پڑھایا جارہا ہے۔ ان کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے اور پھر انہیں ڈی ریڈیکلائزیشزن کیمپوں میں بھیج دیا جانا چاہیے۔‘‘

جنرل راوت نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ''جو گروپ شدت پسندی پھیلارہا ہے سب سے پہلے اسے پکڑنا ہوگا۔ جولوگ پوری طرح شدت پسند بن چکے ہیں ان سے کام شروع کرنا ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں یہ پتا لگانا ہوگا کہ کس میں شدت پسندی کا عنصر کتنا ہے۔  جو لوگ پوری طرح شدت پسند بن چکے ہیں ان سے کام شروع کرنا ہوگا۔ انہیں ڈی ریڈکلائزیشن پروگراموں میں شامل کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ڈی ریڈکلائزیشن کیمپ بنانا ہوں گے۔ آپ کو بتادوں کہ پاکستان بھی یہ کام کر رہا ہے۔ وہاں ڈی ریڈیکلائزیشن کیمپ ہیں کیوں کہ کچھ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کو ہی نقصان پہنچانے لگی ہیں۔‘‘

جنرل راوت کے اس بیان پر مختلف حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار ہریندر باویجا نے ٹوئٹ کرکے کہا، ''یہ خوفناک اور خطرناک بات ہے۔ اور یہ بات جنرل بپن راوت نے کہی ہے۔ ڈی ریڈیکلائزیشن کیمپ کیا ہے؟ اور شدت پسندبن چکے بچوں کی نشاندہی کیسے کی جائے گی؟ کیا ان کے کپڑوں سے؟ یا ان کے حلیوں سے؟"

ایک دیگر سماجی کارکن ساکیت گوکھلے نے لکھا، ''یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ بچوں کو ڈی ریڈیکلائز کرنے کے نام پر گرفتار کرکے حراستی مراکز میں ڈال دیا جائے گا۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جنرل راوت اس طرح کے کیمپو ں کا موازنہ پاکستان میں موجود کیمپوں سے کر رہے ہیں۔‘‘

ساکیت گوکھلے نے وزارت دفاع اور جنرل بپن راوت کے دفتر کو ایک خط لکھ کر اس بیان کی وضاحت کرنے کے لیے کہا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر انہیں جواب نہیں ملا تو وہ قانونی راستہ اختیار کریں گے۔