1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: کرپشن میں کمی آٹے میں نمک کے برابر

شکور رحیم، اسلام آباد3 دسمبر 2014

انسداد بد عنوانی کے لیے کام کرنیوالی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا کے 175 ممالک میں بدعنوانی سے متعلق فہرست میں پاکستان کی درجہ بندی میں ایک پوائنٹ کے ساتھ بہتری آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dyi6
Infografik Korruptionsindex 2014 Englisch

جرمنی کے دارالحکومت برلن میں قائم اس بین الاقوامی تنظیم کی گزشتہ روز جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس پاکستان 29 پوائنٹس کے ساتھ 126 ویں مقام پر ہے جب کہ گزشتہ سال پاکستان کا 127واں نمبر اور اس کے28 پوائنٹس تھے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے 1995ء میں پہلی مرتبہ دنیا کے مختلف ممالک میں بدعنوانی سے متعلق فہرست کا اجراء کیے جانے کے بعد سے پاکستان کی یہ اب تک کی بہترین کارکردگی ہے۔ موجودہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ قائدین اور اعلیٰ سرکاری ملازمین ذاتی مفاد کے لیے عوام کے پیسہ کا غلط استعمال کرتے ہیں جس سے کرپشن روکنے کی کوششیں متاثر اور معاشی ترقی سست ہوتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ حکومت میں کرپشن میں کمی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پاکستان میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مشیر عادل گیلانی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے شفافیت اور بدعنوانی کے خاتمے کے دعوؤں کے باوجود اب بھی سرکاری محکموں میں رشوت ستانی عام ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے لیے قائم ادارے بھی کرپسن سے پاک نہیں، جو س سے بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس میں قابل ذکر نقطہ یہ ہے کہ کرپشن جو بڑھ رہی تھی وہ رک گئی ہے۔ مگر کرپشن کم ہونے کا جو اثر تھا، وہ بہت زیادہ ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہے۔ حکومت کا سیاسی عزم نہیں ہے اس لئے کرپشن سے متعلق ہماری درجہ بندی متواتر خراب آرہی ہے۔ انتیسواں نمبر جو ہے وہ اچھی علامت نہیں ہے، یہ چالیس سے اوپر ہونا چاہیے۔‘‘

پاکستان میں انسداد بدعنوانی کے لئے کام کرنیوالے ادارے قومی احتساب بیورو کی کارکردگی بھی ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہی ہے۔ اس ادارے کو مختلف حکومتوں کی جانب سے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ تاہم آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ادارے کے سربراہ کی تقرری میں شفافیت کے لئے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان بامعنی مشاورت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجو ناقدین کا کہنا ہے کہ نیب کا ادارہ انسداد بدعنوانی کے لیے وہ کردار ادا نہیں کر سکا، جو اسے کرنا چاہیے تھا۔

بدعنوانی کے مختلف مقدمات میں بااثر شخصیات کے خلاف کارروائی نہ کر سکنے پر سپریم کورٹ میں بھی نیب کی کارکردگی زیر تنقید رہی ہے۔ تاہم نیب حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو بد عنوانی سے پاک کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔بدھ کو اسلام آباد میں مختلف کرپشن اور مالیاتی اسکینڈلز میں رقوم کھو دینے والے سرکاری محکموں اور عام شہریوں میں سولہ کروڑ روپے کی تقسیم سے متعلق ایک تقریب منعقد کی گئی۔ نیب کے وائس چئیرمیں سعید سرگانہ نے کہا کہ مشکلات کے باوجود نیب کرپشن کے ذریعے لوٹی گئی رقوم واپس لا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’وائٹ کالر کرائم میں شہادت اکٹھی کرنا، افراد کے خلاف مقدمہ چلانا کافی مشکل کام ہے۔ اور جو لوگ کرپشن میں مصروف ہوتے ہیں وہ اپنے نشان کم چھوڑتے ہیں۔ اس لیے کڑیاں ملانا، شہادت اکھٹی کرنا اور پیسے اکھٹے کرنا کافی مشکل کام ہے۔‘‘

نیب حکام 1999ء کے بعد سے گزشتہ برس تک کرپشن کی مد میں لوٹے گئے 1261 ارب روپے وصول کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ رواں برس نیب کو انسداد بدعنوانی سے متعلق بیس ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔