1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا اگلا صدر کون بنے گا؟

3 ستمبر 2018

پاکستان ميں صدارتی اليکشن کا انعقاد منگل چار ستمبر کو ہو رہا ہے۔ اس ميں تين اميدواروں، عارف الرحمان علوی، مولانا فضل الرحمان اور اعتزاز احسن کے مابين مقابلہ ہے۔ تينوں اميدواروں کا مختصر تعارف درج ذيل ہے۔

https://p.dw.com/p/34DUG
Pakistan Special Report Vergewaltigungen | Regionalparlament in Islamabad
تصویر: DW/I. Jabbeen

عارف الرحمان علوی

Pakistan Arif Alvi
تصویر: AFP/Getty Images/F. Naeem

پاکستان میں صدارتی انتخاب میں سب سے مضبوط امیدوار عارف الرحمان علوی نے ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 29 جولائی سن 1949 کو کراچی میں پیدا ہونے والے عارف علوی پیشے کے لحاظ سے ڈینٹسٹ ہیں اور انکا شمار ملک کے معروف ترین دانتوں کے معالجین میں کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی میشیگن یونیورسٹی سے فارغ الاتحصیل عارف علوی پاکستان ڈینل ایسویس ایشن سے وابسطہ رہے بلکہ بطور صدر ایشیاء پیسیفک ڈینٹل فاوندیشن میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

69 سالہ عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے بنیادی ممبر ہیں اور انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز پولنگ ایجنٹ کے طور پر کیا۔ سن 1997 میں پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن بننے والے عارف علوی نے پہلی مرتبہ سن 1997 برس کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے انتخاب لڑا۔

سن2001 میں عارف علوی کو تحریک انصاف کا نائب صدر بنادیا گیا۔ سن 2002 میں عارف علوی نے پھر صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے قسمت آزمائی کی۔ پہلی مرتبہ مسلم لیگ نواز کے سلیم ضیا اور دوسری مرتبہ متحدہ مجلس عمل کے عمر صادق سے شکت کھاگئے۔

عارف علوی سن 2006 سے 2013 تک پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری رہے اور 2013 کے انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔ اس مرتبہ وہ ایم کیو ایم کی خاتون امیدوار خوشبخت شجاعت کے خلاف الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔

سن 2016 میں عارف علوی کو پارٹی کا صوبائی صدر نامزد کیا گیا اور 25 جولائی کے انتخابات میں عارف علوی دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جبکہ 18 جولائی کو پارٹی قیادت نے انہیں صدارتی امیدوار نامزد کردیا۔

مولانا فضل الرحمان

Pakistan Maulana Fazlur Rehman Jamiat Ulema-e-Islam Fazl 23. Oktober 2014
تصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

مولانا فضل الرحمان اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے صدارت کے امیدوار ہیں۔ جون سن 1953 میں معروف عالم دین مفتی محمود کے گھر پیدا ہونے والے فضل الرحمان سن 1980 میں سیاسی سفر کا آغاز بطور سیکریٹری جنرل جمیعت علماء اسلام سے کیا۔ والد کے انتقال کے بعد وہ جے یو آئی کے مرکزی امیر بن گئے اور اس وقت مذھبی جماعتوں کے انتخابی اتحاد متحدہ مجلسِ عمل یا ایم ایم اے کے مرکزی صدر بھی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کا شمار پاکستان کے سینیئر پارلیمنٹیرین میں ہوتا ہے۔ مشرف دور حکومت میں مولانا فضل الرحمان سن 2004 سے 2007 تک قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہ چکے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک انہوں نے پارلیمان کی کشمیر کمیٹی کے چیرمین کے طور پر بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے پہلی مرتبہ مولانا فضل الرحمان کو اس عہدے پر فائز کیا تھا اور درجہ وفاقی وزیر کے برابر رکھا گیا تھا۔ مولانا 1988 سے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں مگر 1990 اور حالیہ انتخابات میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔

مولانا فضل الرحمان کو عام طور پر طالبان حامی سیاست دان کے طور پر خیال کیا جاتا ہے تاہم وہ مذہبی شدت پسندوں اور انتہا پسندوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے خود کو ایک اعتدال پسند قرار دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان پر انتہا پسندوں نے سن 2011 میں پہلی مرتبہ خودکش حملہ کیا تھا۔ یہ حملہ پشاور اسلام آباد موٹر وے کے قریب ہوا اور صرف ایک روز بعد ہی دہشگردوں نے ان پر دوسرا حملہ کیا جس میں 12 افراد جان سے گئے مگر مولانا فضل الرحمان محفوظ رہے۔ مولانا پر تیسرا حملہ سن 2014 میں کوئٹہ ریلی کے دوران کیا گیا۔ پاکستان میں نظام شریعت محمدی کا نفاذ مولانا کی جماعت کا اولین مقصد ہے تاہم اپنے سیاست کے آغاز سے وہ سیکولر جماعتوں کی حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔

موجودہ صدارتی انتخاب کے لئے مولانا کو امیدوار نامزد کئے جانے پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے اعتراض کیا ہے تاہم مولانا پھرپور کوشش کررہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو اپنا امیدوار دستبردار کرنے پر راضی کیا جاسکے۔

اعتزاز احسن

Pakistan Aitizaz Ahsan
تصویر: picture alliance/AP Photo/B. K. Bangash

پیپلز پارٹی نے معروف قانون دان اور سیاست دان چودھری اعتزاز احسن کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ اعتزاز احسن نے سول سروس کے امتحان میں ٹاپ کرنے کے باوجود ملازمت اختیار نہیں کی۔ انہوں نے سیاسی زندگی کا آغاز سن 1970 میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت سے کیا اور گجرات سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے کے بعد صوبائی کابینہ کے رکن بنے تاہم سن 1977 میں پولیس کی جانب سے وکلا ریلی پر فائرنگ پر احتجاجاٰ انہوں نے کابینہ سے استعفٰی دیا اور پیپلز پارٹی چھوڑ کر ائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کرلی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی تو اعتراز احسن پیپلز پارٹی میں لوٹ آئے۔

اعتراز احسن نے برطانیہ کے ڈاو لاء کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور انکا شمار سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ وہ بے نظیر بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر داخلہ تھے اور بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دورہ پاکستان کے دوران سکھ علیحدگی پسندوں کی فائلیں فراہم کرنے کا الزام بھی اعتزاز احسن پر عائد کیا جاتا ہے۔ انکی اہلیہ بشرٰی اعتزاز ایل این جی (لیکویڈیٹڈ نیچرل گیس) کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور اسی بنا پر اُن کی مخالف سیاسی پارٹیاں اعتزاز احسن پر مشرف دور میں خلاف ضابطہ ایل این جی کے ٹھیکے لینے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔

اعتزاز احسن نے سن 1988، 1990، 2002 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی اور سن 1994، 1996، 1999 اور 2012 میں بطور سینٹر خدمات سرانجام دیں۔ وہ سن 2007 سے 2008 تک سپریم کورٹ بار ایسویس ایشن کے صر بھی رہ چکے ہیں۔

اعتزاز احسن مشرف دور میں معزول چیف جسٹس افتخار چودھری اور دیگر ججز کی بحالی تحریک کے روح رواں تھے۔ تحریک کو اس مقام پر لے گئے کہ آصف زرداری کومعزول ججز کو بحال کرنا پڑا، بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد بے نظیر بھٹو کے دیگر قریبی ساتھیوں کی طرح اعتزاز احسن کو بھی پارٹی میں کسی حد تک سائڈ لائن کردیا گیا اور رواں برس ہونے والے سینٹ انتخابات میں انہیں پارٹی ٹکٹ بھی نہیں دیا گیا تھا۔