1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں کرونا وائرس کا خوف اور اس سے بچاؤ کی تدابیر

عبدالستار، اسلام آباد
22 جنوری 2020

واضح رہے پاکستان میں ہزاروں چینی باشندے کام، کاروبار اور تعلیم کے سلسلے میں ملک میں موجود ہیں اور ان کا اپنے ملک آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3WeTu
China Corona-Virus in Wuhan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dake Kang

طبی ماہرین نے کرونا وائرس کے چین میں پھیلنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چین سے آنے والے افراد کی سخت نگرانی کرے اور وائرس کی علامات کی شکل میں فوری طور پر اقدامات کرے۔

واضح رہے پاکستان میں ہزاروں چینی باشندے کام، کاروبار اور تعلیم کے سلسلے میں ملک میں موجود ہیں اور ان کا اپنے ملک آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔ اس وائرس سے چین میں اب تک 400 سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں جب کہ نو کے قریب ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب چین ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود اس کا مقابلہ صحیح معنوں میں نہیں کر پا رہا تو پاکستان کیسے اس کا مقابلہ کرے گا۔ پاکستان میڈیکل ایسویسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا کہنا ہے کہ اگر اس مرض کی وباء خدانخواستہ پاکستان آتی ہے تو ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے: ''یہ وائرس انسان سے انسان میں بھی منتقل ہو سکتا ہے، جس کہ لیے آپ کو آئیسولیشن وارڈز چاہییں جب کہ ہمارے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں آئیسولیشن وارڈز نہیں ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ وباء یہاں آتی ہے تو پھر تیزی سے پھیلے گی۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ چین سے آنے والے مسافروں کو فوری طور پر چیک کریں اور اگر کسی کا ٹمپریچر 100 کے قریب ہے یا اس سے تھوڑا کم ہے، تو فورا اس کو علیحدہ کرے: ''ٹمپریچرکا بڑھنا اس مرض کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ ناک سے پانی بہنا، رنگ سرخ ہوجانا، بخار ہونا اور سانس کا تیز ہونا اس کی کچھ علامتیں ہیں۔ عموماﹰ سانس کی رفتار 12 سے 14 ہونی چاہیے لیکن اگر یہ 18 سے 20 ہے، تو یہ پریشانی کی بات ہے۔ اگر ایسی کوئی علامات ہیں تو ایسے شخص کو فورا کورنٹین کیا جائے۔‘‘

Corona Virus China
کرونا وائرس سے چین میں اب تک 400 سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں جب کہ نو کے قریب ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ تصویر: picture-alliance/dpa/Center of Disease Control

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے طبی ماہر ڈاکٹر عبید عثمانی کا کہنا ہے کہ یہ بات تشویش ناک ہے کہ وائرس کو پھیلے ہوئے کچھ دن ہو چکے ہیں اور حکومت نے اب ایئرپورٹ پر اسکرین لگائے ہیں: ''میرے خیال میں جو چینی باشندے حال ہی میں ملک میں آئے ہیں، ان کا فوراﹰ طبی معائنہ کرایا جائے۔ اس کے علاوہ ایئرپورٹ پر اسکریننگ بھی ہونی چاہیے اور میڈیکل ٹیم بھی وہاں موجود ہونی چاہیے۔ ورنہ اگر یہ وباء پھیلی تو ہمارا اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ ہمارے ہاں صحت کا اور صفائی ستھرائی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ایسے وائرس کے لیے یہ صورت حال آئیڈیل ہے۔‘‘ تاہم پاکستانی حکومت طبی ماہرین کی تشویش سے متفق نہیں ہے اور اس کے خیال میں حکومت نے تمام احتیاطی تدابیر کر لی ہیں۔

کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے تمام اقدامات مکمل ہیں، پاکستانی حکومت

وزارت صحت کی طرف سے میڈیا کو بھیجی جانے والی ایک پریس ریلز کے مطابق حکومت نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے ہیں۔ وزارت صحت کے ایک اعلٰی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کرونا وائرس کی اسکریننگ کے لیے حکومت نے ملک کے تمام ایئرپورٹس پر ڈیسک قائم کر دیے ہیں: ''چین سے پاکستان آنے جانے والوں کا طبی معائنہ کیا جائے گا کیونکہ چین سے پاکستان آنے جانے والے لاکھوں افراد کے ذریعے وائرس کی منتقلی کا خدشہ ہے۔ پاکستان چین کے پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے اس خطرے کی زد میں آسکتا ہے۔‘‘

وزارت صحت کی ایک پریس ریلیز میں اس بیماری کے حوالے سے ایسے نکات دیے گئے ہیں، جس سے طبی حکام اور عام عوام میں اس بیماری کی حوالے سے شعور بیدار ہو۔ اس اعلامیے میں اس وبا کی علامتیں، اس کی نوعیت اور اس کی منتقلی کے ممکنہ طریقے سے عام عوام اور طبی عملے کو آگاہ کیا گیا ہے۔ اس میں مزید بتا یا گیا ہے کہ ایسے افراد پر نظر رکھی جائے، جنہیں سانس لینے میں دشواری ہو، جنہیں بخار ہو اور کھانسی کی شکایت ہو اور جنہوں نے گزشتہ 15 دنوں میں چین کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہو۔ ایسے افراد پر نظر رکھنے کا بھی کہا گیا ہے جو وائرس سے ممکنہ طور پر متاثر ہوں یا متاثرہ شخص سے کسی بھی طرح جسمانی طور پر رابطے میں آئے ہوں یا وہ متاثرہ جانوروں کے قریب رہے ہیں یا پھر سی فوڈز، گوشت یا کوئی اور اینمل پروڈکٹ کھایا ہو۔

BG China Reisewelle Neujahrsfest Coronavirus
پاکستان میں ہزاروں چینی باشندے کام، کاروبار اور تعلیم کے سلسلے میں ملک میں موجود ہیں اور ان کا اپنے ملک آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔تصویر: Reuters/J. Lee

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد کے خون کے نمونے تربیت یافتہ اسٹاف کے ذریعے لیے جائیں اور انہیں ٹیسٹ کے لیے بھیجا جائے۔ کسی ایمرجنسی کے لئے وزارت صحت نے ٹیلی فون نمبرز بھی دیے ہیں۔

واضح رہے کہ ہزاروں کی تعداد میں چینی گلگت بلتستان کے ذریعے بھی پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ جب ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے گلگت بلتستان کے وزیر اعلٰی کے ترجمان فیض اللہ فراق سے رابطہ کیا، تو انہوں نے بتایا، ''خنجراب کا باڈر بند ہے اور چین سے کوئی آمد و رفت نہیں ہو رہی۔ لہٰذا ہمارے علاقے میں اس وبا کے پھیلنے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘

وزارت صحت کے پبلک ریلشنز آفیسر ساجد حسین شاہ کے مطابق وزارت صحت میں ایک ایمرجنسی آپریشن سیل قائم کر دیا گیا ہے تاکہ صورت حال کو چوبیس گھنٹے مانیٹر کیا جا سکے: '' آج وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ایک اعلٰی سطحی اجلاس کی بھی صدارت کی جس میں حکومتی تیاریوں اور ریسپانس کا جائزہ لیا گیا۔ ایئرپورٹس اور بندرگاہوں پر چین سے آنے جانے والوں کی سخت نگرانی کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ چین سے پاکستان ہر ہفتے 41 فلائٹس آتی ہیں۔ تمام صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں خط لکھے جارہے ہیں اور اس کے علاوہ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی سے بھی رابطہ کیا جارہا ہے اور صورت حال سے نمٹنے کے لیے چین کے سفارت خانےسے بھی مل کر کام کیا جائے گا۔‘‘