1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ایک اور پولیو ورکر اور دو پولیس اہلکار ہلاک

28 جون 2022

شمالی مغربی پاکستان کے ضلع شمالی وزیرستان میں ایک پولیو ویکسینیشن ٹیم پر کیے جانے والے خونریز حملے میں ایک پولیو ورکر اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ افغان سرحد کے قریبی علاقے میں یہ حملہ منگل اٹھائیس جون کو کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/4DM38
تصویر: Metin Aktas/AA/picture alliance

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پولیو کے خلاف مقامی بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے والی اس ٹیم کے ارکان شمالی وزیرستان میں گھر گھر جا کر ویکسینیشن کر رہے تھے کہ نامعلوم مسلح حملہ آوروں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ اس حملے میں ایک شخص زخمی بھی ہوا جبکہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

پاکستان: ویکسین پر شبہات اور سازشی نظریات پولیو کیسز میں اضافے کی وجہ

یہ حملہ شمالی وزیرستان کے سابقہ نیم خود مختار قبائلی علاقے میں ایک ایسے مقام پر کیا گیا، جو پاکستان کی افغانستان کے ساتھ قومی سرحد سے زیادہ دور نہیں اور ماضی میں مقامی طالبان اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا گڑھ رہا ہے۔

اینٹی پولیو مہم ایک روز پہلے ہی شروع ہوئی تھی

حملے کا نشانہ بننے والی اینٹی پولیو ٹیم اس مہم کا حصہ تھی، جو اقوام متحدہ کی طرف سے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل سے ابھی کل پیر ستائیس جون کو ہی شروع ہوئی تھی۔ مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار شاہد علی خان کے مطابق پاکستان میں بچوں کو جسمانی طور پر معذور بنا دینے والی یہ بیماری ابھی تک پائی جاتی ہے اور شمالی وزیرستان کا شمار ان پاکستانی علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں اس مرض کے بچوں میں پائے جانے کا خطرہ ابھی تک بہت زیادہ ہے۔

Pakistan Polio Impfung
پولیو کا مرض پوری دنیا میں اب صرف پاکستان اور افغانستان میں پایا جاتا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی قومی مہم کے ترجمان ذوالفقار باباخیل نے بتایا کہ ملک میں گزشتہ ایک سال سے بھی زیادہ عرصے کے دوران پولیو کا کوئی نیا کیس دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ پھر پچھلے تقریباﹰ دو ماہ کے دوران شمالی وزیرستان میں ہی اس بیماری کے کم از کم دس نئے کیسز دیکھنے میں آئے تھے۔

پولیو کا مرض اب دنیا کے صرف دو ممالک میں

پاکستان دنیا کے ان صرف دو ممالک میں سے ایک ہے، جہاں پولیو کی بیماری کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہو سکا۔ ان میں سے پاکستان کے علاوہ دوسرا ہمسایہ ملک افغانستان ہے۔

پاکستان میں پندرہ ماہ بعد پولیو کا نیا کیس سامنے آگیا

پاکستان میں گزشتہ تقریباﹰ ایک دہائی کے دوران سالانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ نئے پولیو کیسز 2014ء میں دیکھنے میں آئے تھے، جن کی تعداد 306 رہی تھی۔ اس کے بعد سے یہ تعداد ہر سال مسلسل کم ہوتی گئی تھی۔

پھر ماضی قریب میں تقریباﹰ ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک کوئی ایک بھی نیا کیس رجسٹر نہ کیا گیا اور سال رواں کے دوران اب تک پاکستان میں پولیو کے دس نئے کیس رجسٹر کیے جا چکے ہیں۔

بِل گیٹس کا دورہ پاکستان، پولیو کا خاتمہ چند برس میں ممکن

ڈاکٹرآمنہ سرور، جنہوں نے پولیو کو پاؤں کی بیڑیاں نہ بننے دیا

عسکریت پسندوں کے حملوں کی وجہ

پاکستان میں دہشت گردوں کے القاعدہ نیٹ ورک یا مقامی طالبان سے قربت رکھنے والے عسکریت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو کی مہم کے ارکان پر خونریز حملے بار بار دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایسے حملوں میں اب تک درجنوں پولیو کارکن اور اس کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

طالبان کی نگرانی میں ’تاریخی انسدادِ پولیو مہم‘ کا آغاز

خاص طور پر بچوں کو متاثر کرنے اور انہیں عمر بھر کے لیے جسمانی طور پر معذور بنا دینے والی اس بیماری کے خلاف ویکسینیشن کرنے والے کارکنوں پر عسکریت پسندوں کی طرف سے حملے اس لیے کیے جاتے ہیں کہ ایسے شدت پسند عناصر کے مطابق یہ پولیو ٹیمیں 'جاسوسی‘ کرتی ہیں اور بچوں کو ویکسین پلا کر ان کی 'افزائش نسل کی جسمانی اہلیت‘ کو مبینہ طور پر ختم کر دیا جاتا ہے۔

شدت پسندوں کی یہ نام نہاد منطق بالکل غلط اور بے بنیاد ہے، لیکن اسی کی وجہ سے ہر سال پاکستان میں اینٹی پولیو ٹیموں کے بہت سے ارکان کی جان چلی جاتی ہے۔

م م / ک م (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)

پاکستان کی ایک باہمت خاتون پولیو ورکر