1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں توانائی بچانے کا جرمن منصوبہ

27 اکتوبر 2011

توانائی کے بحران سے دوچار پاکستان میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے جرمنی کے ممتاز ترقیاتی ادارے جی آئی زیڈ کے تعاون سے توانائی کے ضیاع کو روکنے کا ایک ماحول دوست منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/130Km
آل پاکستان ٹٰیکسٹائل ملز اونرز ایسوسی ایشن کا ہیڈکوارٹرتصویر: DW

اس منصوبے کے تحت پاکستان میں دھاگہ بنانے والے چار سو کارخانوں میں انرجی مینیجمنٹ سسٹم رائج کرکے 268 میگا واٹ بجلی بچائی جائے گی۔ اس طرح نہ صرف آٹھ ارب روپے کی بچت ہو گی بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی کثافتوں کے علاوہ ایک ملین ٹن سے زیادہ کاربن ڈائی آکسایئڈ کا اخراج  بھی روکا جا سکے گا۔

اس منصوبے کے ذریعے پاکستانی ٹیکسٹائل ملوں میں توانائی کی بچت کے خصوصی سیل بنائے جائیں گے، عملے کو خصوصی تربیت دی جائے گی اور بجلی کی ترسیل کو باقاعدہ طور پر مانیٹر کرتے ہوئے اس کا مؤثر استعمال یقینی بنایا جائے گا۔ یہ منصوبہ پاکستانی ٹیکسٹائل ملوں میں مرحلہ وار شروع کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں مستفید ہونے والی  ہر مل کو معمولی رقم ادا کرنا ہوگی۔

سیکرٹری اپٹما انیس احمد کے مطابق اس سے پہلے جرمن ماہرین کی مدد سے 25 ٹیکسٹائل ملوں میں پہلے ہی یہ تجربہ کامیابی سے مکمل کیا جا چکا ہے۔ یاد رہے کہ اس ضمن میں جرمن ماہرین کسی معاوضے کے بغیر پچیس ملوں میں ساڑھے سات میگا واٹ بجلی بچا کر 293 ملین روپے کی بچت کرنے کا عملی مظاہرہ کر چکے ہیں۔

Pakistan Lahore GTZ Energie Umwelt
جرمن ماہرین کچھ عرصے سے پاکستان کی ٹٰیکسٹائل ملوں میں توانائی کی بچت کا تصور متعارف کرا رہے ہیںتصویر: DW

پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر سب سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والا سیکٹر ہے جو کہ پندرہ سو میگا واٹ بجلی استعمال کرتا ہے۔ اپٹما کی چار سو ملوں میں سے 80 فیصد اپنی بجلی خود تیار کرتی ہیں جبکہ 20 فیصد واپڈا کی بجلی استعمال کرتی ہیں۔ ملک کے لیے سب سے زیادہ زر مبادلہ کمانے والے اس سیکٹر کو بجلی کے کم اور مہنگا ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

انیس احمد کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیکسٹائل ملیں انرجی مینیجمنٹ سسٹم کو اپنا کر انرجی مینیجمنٹ کے عالمی میعار کے وہ سرٹیفکیٹ بھی حاصل کر سکیں گی جو کہ آنے والے دنوں میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹروں کے لیے ضروری ہوں گے۔

 اپٹما نے جرمن ماہرین کی مدد سے توانائی کے امور میں فنی معاونت فراہم کرنے کے لیے"سسٹین ایبل پروڈکشن سنٹر" بھی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

 اس موقع پر ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے جی آئی زیڈ کے پرنسپل ایڈوائزر برائے متبادل توانائی بَیرن ہارڈ مائے ہَوئفَر نے بتایا کہ ہم پاکستانی صنعت کو درپیش توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے مدد فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے بقول دھاگہ بنانے والا ایک عام کارخانہ انرجی مینجمنٹ کے جدید طریقے اپنا کر بیس سے پچیس فی صد بجلی بچا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب وہ ٹیکسٹائل کے علاوہ دوسری صنعتوں کو بھی یہ خدمات فراہم کریں گے۔ ان کے مطابق جی آئی زیڈ توانائی بچانے کے علاوہ توانائی کے متبادل ذرائع سے بجلی کے حصول کے لیے بھی رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔

Seide aus Japan
پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر سب سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والا سیکٹر ہےتصویر: picture-alliance/dpa

 ثمین ٹیکسٹائل ملز کے عبدالجبار نے بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ جرمن ماہرین کی مدد سے ان کے کارخانے کا بجلی کا بل کافی کم ہو گیا ہے اور وہ مختصر عرصے میں ایک میگا واٹ بجلی بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے بقول جرمن ماہرین اس حوالے سے ہمارے  لوگوں کا مائنڈ سیٹ بدلنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے کہا بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کاروباری دنیا کو توانائی کی بچت کے منصوبوں کی طرف ہی آنا ہو گا۔

اپٹما میں قائم انرجی کنزرویشن سیل سے وابستہ خاور رشید نے بتایا کہ بہت معمولی لاگت سے بجلی بچانے کا جرمن منصوبہ ایک نیا تصور ہے لیکن پھر بھی یہ پاکستان کے کاروباری حلقوں میں  تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں