1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، دولت مندوں کی فصیل بند جنتیں

امجد علی14 دسمبر 2013

عالمی بینک کے ایک جائزے کے مطابق ساٹھ فیصد پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں تاہم لاہور، اسلام آباد اور کراچی جیسے شہروں میں کوئی ایک لاکھ افراد بلند معیارِ زندگی کی حامل فصیل بند آبادیوں میں رہ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1AZgn
تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں واقع گنجان آباد شہر راولپنڈی کے بیرونی سرے پر ایک شاندار محرابی گیٹ کے اندر داخل ہوں تو آپ ایک مختلف پاکستان میں پہنچ جائیں گے، جہاں نہ صرف صاف ستھرے پارک اور گالف کے میدان ہیں بلکہ جہاں ملک کے باقی حصوں کے برعکس بجلی کی ترسیل بھی کبھی منقطع نہیں ہوتی۔ یہ ہے، طالبان کے حملوں اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے تنگ آئے ہوئے ملک کے نئے متوسط طبقے کی پناہ گاہ ’بحریہ ٹاؤن‘۔

پاکستان کی اس سب سے بڑی فصیل بند آبادی میں ڈھلوانوں پر اوپر نیچے آتی جاتی اور شیشے کی طرح چمکتی سڑکوں پر کاریں دھیمی رفتار کے ساتھ رواں دواں نظر آتی ہیں۔ جہاں باقی پاکستان میں سڑکوں پر پھرتے مال مویشی ٹریفک کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں، وہاں اس آبادی میں زیادہ سے زیادہ اس طرح کے جانوروں کے مجسمے پارکوں میں ایستادہ نظر آتے ہیں۔

یہ مجسمہء آزادی نیویارک میں نہیں بلکہ ’بحریہ ٹاؤن‘ میں نصب ہے
یہ مجسمہء آزادی نیویارک میں نہیں بلکہ ’بحریہ ٹاؤن‘ میں نصب ہےتصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

یہاں گھڑ سواری کے ایک مرکز اور گالف کورس کے ساتھ ساتھ ایک شاندار سینما گھر، ایک ایئر کنڈیشنڈ کیفے اور ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی ہے، جہاں ’ملک کے واحد سیاہ چیتے‘ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ نوجوان جوڑے بے فکری کے ساتھ یہاں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

اس آبادی کے مختلف حصوں میں پیرس کے آئفل ٹاور یا پھر لندن کے ٹریفالگر اسکوائر کے نیلسنز کالم کے بیس بیس میٹر بلند ماڈل بھی رکھے گئے ہیں اور یوں یہ علاقہ بے ہنگم ٹریفک، نہ ختم ہونے والی لوڈ شیڈنگ اور انسانوں کے بے قابو ہجوموں سے عبارت پاکستان کا نہیں بلکہ کسی اور ہی دنیا کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ملازم ریاض نے اے ایف پی کو بتایا کہ چند ماہ پہلے تک وہ تشدد کی لپیٹ میں آئے ہوئے گنجان آباد شہر کراچی میں رہ رہا تھا جبکہ اب بحریہ ٹاؤن اُسے کراچی کے مقابلے میں ایک جنت کی طرح لگتا ہے۔

ان فصیل بند آبادیوں میں نہ تو ٹریفک کا شور ہوتا ہے، نہ اتنا ہجوم کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہو اور نہ ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ جیسی مشکلات
ان فصیل بند آبادیوں میں نہ تو ٹریفک کا شور ہوتا ہے، نہ اتنا ہجوم کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہو اور نہ ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ جیسی مشکلاتتصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

فصیل بند شہری آبادیوں کا سلسلہ 1990ء میں امریکا میں شروع ہوا تھا، جو جلد ہی پوری دنیا میں پھیل گیا۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران پاکستان میں دہشت گردی، بڑھتے ہوئے جرائم اور چلچلاتی دھوپ میں لوڈ شیڈنگ کے عذاب کے باعث اس طرح کی آبادیوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ’زمین ڈاٹ کوم‘ نامی پراپرٹی ڈیلنگ فرم سے وابستہ شائستہ ذوالفقار کے مطابق آج کل پاکستان بھر میں اس طرح کی فصیل بند آبادیوں کی تعداد کم از کم دو درجن بنتی ہے۔

بحریہ ٹاؤن کی شاخیں اب تین شہروں یعنی اسلام آباد، لاہور اور کراچی تک بھی پھیل چکی ہیں، جہاں مجموعی طور پر کوئی ایک لاکھ افراد رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح کی آبادیوں میں سکیورٹی کا انتظام بھی غیر معمولی ہے، سی سی ٹی وی کیمروں کی آنکھیں ہمہ وقت چوکس رہتی ہیں اور گشت پر مامور سکیورٹی عملہ کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو نکال باہر کرنے کے لیے مستعد رہتا ہے۔ ان آبادیوں کے اپنے جنریٹرز ہیں، جو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کرتے ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کا اپنا ایک میئر بھی ہوتا ہے۔ ارب پتی پراپرٹی ڈیلر ملک ریاض کی ملکیت یہ کمپنی پلاٹ بیچتی ہے، مکان، اسکول، ہسپتال تعمیر کرتی ہے اور ایک مقامی ’ٹیکس‘ کے بدلے سکیورٹی اور بجلی کے ساتھ ساتھ فراہمی و نکاسیء آب کا بھی انتظام چلاتی ہے۔ بحریہ ٹاؤن یا پھر اُس کی حریف گلبرگ گرینز اور خداداد سٹی جیسی آبادیوں میں ملک کی مڈل اور اَپر مڈل کلاس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے خاندان بھی آباد ہیں۔

بحریہ ٹاؤن جیسے منصوبوں کے خالق اور ارب پتی پاکستانی پراپرٹی ڈیلر ملک ریاض
بحریہ ٹاؤن جیسے منصوبوں کے خالق اور ارب پتی پاکستانی پراپرٹی ڈیلر ملک ریاضتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Gettyimages

اس طرح کی آبادیوں میں زمین کی قیمتیں بھی چند سال کے اندر اندر آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ 2007ء میں لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں دو سو مربع میٹر کے ایک پلاٹ کی قیمت چالیس لاکھ روپے تھی جبکہ 2012ء میں اسی پلاٹ کی قیمت بڑھ کر نوّے لاکھ روپے ہو چکی تھی۔ اس طرح کی آبادیوں میں بنے بنائے گھروں کی قیمتیں دس سے لے کر تیس تیس کروڑ تک بھی پہنچ چکی ہیں۔ ڈالر کی مسلسل گرتی ہوئی قدر کے دور میں پراپرٹی کا کاروبار سرمایہ کاری کے لیے بھی محفوظ تصور کیا جا رہا ہے۔

پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے ایک شخص عمر پراچہ نے، جو اسلام آباد میں پلاٹ خریدتا اور بیچتا ہے، جبکہ خود کہیں اور رہتا ہے، اے ایف کو بتایا کہ یہ بہت اچھی سرمایہ کاری ہے اور وہ 2007ء سے اب تک تین سو فیصد منافع کما چکا ہے۔ تاہم عالمی بینک کے مطابق محض 1.25 ڈالر روزانہ سے بھی کم میں گزارہ کرنے والے زیادہ تر پاکتسانیوں کے لیے بحریہ ٹاؤن جیسی آبادیاں ایک ایسی دنیا ہیں، جس کا وہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔

اسلام آباد کے بحریہ ٹاؤن کے داخلی گیٹ کے سامنے واقع چوک میں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس درجنوں مزدور کام کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک حاجی گلزار نے بحریہ تاؤن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’یہ پاکستان کی طرح نہیں لگتا، یہ تو ایک نیا ہی ملک لگتا ہے۔ باقی پاکستان اور اس میں دن اور رات کا، سیاہ اور سفید کا اور زمین اور آسمان کا فرق ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید